فواد چوہدری کیخلاف دو افراد کے بیانات کے علاوہ کوئی شواہد موجود نہیں، تحریری فیصلہ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کی نیب کیس میں ضمانت منظوری کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پراسیکیوٹر نے تسلیم کیا کہ ملزم کے خلاف دو افراد کے بیانات کے علاوہ کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے فیصلہ جاری کیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فواد چوہدری پر الزام ہے کہ انہوں نے جہلم روڈ منصوبے میں کرپشن کی، منصوبے کا پی سی ون پلاننگ بورڈ پنجاب نے منظور کیا، دو رویا سڑک منصوبے کا پی سی ون سی ڈی ڈبلیو ڈی اور ایکنک سے بھی منظور ہوا، تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد منصوبہ ایف ڈبلیو او کو سونپا گیا۔
عدالت نے تحریری فیصلے میں کہا کہ اسپیشل پراسیکیوٹر نیب نے تسلیم کیا کہ مقدمے میں ان تمام ایجنسیز کا کوئی بھی اہلکار ملزم نامزد نہیں، فواد چوہدری پر ٹھیکیدار محمد علی سے 50 لاکھ روپے رشوت لینے کا الزام ہے، الزام ہے کہ فواد چوہدری نے منصوبہ ٹھیکیدار محمد علی کو سونپنے کے لیے 50 لاکھ روپے رشوت لی، ٹھیکیدار محمد علی کا بیان نیب کی جانب سے ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہائی وے ڈویژن کے ایکس ای این کے مطابق فواد چوہدری نے منصوبے کی فیزی بیلٹی رپورٹ بنانے کے لیے بھی دباؤ ڈالا، ملزم فواد چوہدری کو 19 دسمبر 2023ء کو گرفتار کیا گیا اور مقدمہ صرف ابھی انکوائری اسٹیج پر ہے، اس معاملے کی تحقیقات کی سفارش ہوئی، نہ ہی ریفرنس فائل کرنے کی سفارش ہوئی، نیب کے دفعہ 4 ٹو بی کے تحت یہ معاملہ نیب کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں آتا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ فواد چوہدری کی ضمانت کی درخواست دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کی جاتی ہے، ضمانت منظوری کا فیصلہ کیس کے ٹرائل پر اثر انداز نہیں ہوگا۔