پی ٹی آئی کو لانے کیلئے پیپلز پارٹی نے سہولتکاری کا کردار ادا کیا، شہزاد اقبال

سینئر تجزیہ کار اور پروگرام نیا پاکستان کے میزبان شہزاد اقبال نے کہا ہے کہ 2018ء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو لانے کیلئے جو اسٹیج سیٹ کیا گیا اس میں پیپلز پارٹی نے سہولتکاری کا کردار ادا کیا۔

جیو نیوز پر الیکشن 2024 سے متعلق خصوصی ٹرانسمیشن کے دوران گفتگو کرتے ہوئے شہزاد اقبال کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو 2013ء میں مہم نہیں کرنے دی گئی۔ یہ جو کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری سب پر بھاری مگر وہ پیپلز پارٹی پر بھاری پڑے ہیں خاص طور پر پنجاب اور کے پی میں، یہ ایک صوبے کی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چارٹر آف ڈیمو کریسی کے بعد آتے ساتھ ہی پیپلز پارٹی نے پنجاب میں گورنر راج لگا دیا۔ انہوں نے ججوں کو بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا وہ وعدہ پورا نہیں کیا۔ اس کی وجہ سے 2008ء سے 2013ء کی جو پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اس کی محاذ آرائی عدلیہ کے ساتھ ہوتی رہی جس کا نقصان بھی ان کی حکومت کو ہوا۔

شہزاد اقبال کا کہنا تھا کہ وہی پیپلز پارٹی جو جمہوریت بچانے کے لیے ن لیگ کے ساتھ تھی اس نے ن لیگ کے خلاف بھی سیاست کی، جب پاناما آیا تو وہ پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے تھے۔ جب پاناما کا فیصلہ آیا تو پیپلز پارٹی نے اسے سیلیبریٹ کیا اور کہا کہ ثابت ہوا کہ نواز شریف کرپٹ ہیں اور وہ چور ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 2018ء میں بلوچستان حکومت گرائی گئی اور 2018ء میں جو پی ٹی آئی کو لانے کے لیے اسٹیج سیٹ کیا گیا پیپلز پارٹی نے اس میں سہولت کاری کا کردار ادا کیا۔ جب عمران خان حکومت میں آئے تو بلاول نے اس کو نام دیا سلیکٹڈ کا جبکہ خود سہولت کاری کرتے آئے تھے۔

انکا کہنا تھا کہ 2022ء میں عدم اعتماد آیا جس کا آغاز پیپلز پارٹی نے کیا۔شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا اب کہتے ہیں کہ انہوں نے ڈیڑھ سال میں شہباز شریف نے ملک کا بیڑا غرق کردیا۔

سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی جو سیاست ہے کبھی اسٹیبلشمنٹ کے رائٹ سائڈ پر کبھی لیفٹ سائڈ پر180 ڈگری انہوں نے اپنی سیاست میں جتنے یوٹرن لیے لوگوں کو سمجھ نہیں آرہا کہ ان کی پوزیشن کیا ہے۔ ان کی سیاست کو بڑا نقصان ہے وہ سسٹم میں اپنی جگہ نہیں بنا پائے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمانی سیاست ہو، قانون سازی ہو یا ابھی مہم ہو، بلال نے سب زبردست کیا ہے لیکن جو یہ سیاست ہے اس سے ناصرف دیہی سندھ کو نقصان پہنچا ہے بلکہ شہری سندھ کو بھی پہنچا ہے۔

شہزاد اقبال کا کہنا تھا کہ کافی سارے امیدواروں کا نشان ’A‘ ہے اور ایک کا تالہ ہے جو ماضی میں نشان ہوتا تھا، یہ کیسے ہوا؟ تحریک انصاف کے ہر جگہ مختلف نشان ہیں۔

Pakistan election 2024 | Election 2024 Constituencies | Election 2024 candidates

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے