محبتوں کا سلطان – ایک پیکرِ نور۔۔از قلم ۔ شنیلہ جبین زاهدی ۔۔بارسلونا سپین 

IMG_4733

پھولوں کا رس نچوڑوں یا عطر کی بوندیں ادھار لوں، تاکہ اس مہ و ماہ ہستی کے ذکر کے لیے میرا قلم معطر ہو جائے۔ دل کی تمنا ہے کہ الفاظ ایسے برستے موتی بن جائیں کہ پڑھنے والا لمحہ بھر کے لیے خود کو اس ہستی کے قرب میں محسوس کرے، جیسے وہ سراپا نور شخصیت بنفسِ نفیس اُس کے سامنے موجود ہو۔

میرے قلم کا شعور آج برسوں بعد پھر جاگ اٹھا ہے۔ جذبات نے دستہ بستہ اُس درِ محبت پر حاضری کی اجازت چاہی، جہاں روح کو طمانیت، دل کو قرار، اور آنکھوں کو وضو ملتا ہے۔ اُس ہستی کی جانب میری اُنگلیاں بڑھتی جا رہی ہیں، جسے ربِ کائنات نے نہ صرف "بھیرہ پاک” کا روحانی سلطان بنایا، بلکہ ہزاروں میل دور، بحر و بر پار کرنے کے بعد بھی، اسی شدتِ محبت، اسی خلوصِ عقیدت اور اسی وابستگی کی مہک میں زندہ رکھا۔

میری مراد ہے اُس پاکیزہ ذات سے، جس کا تذکرہ قلوب کو منور کر دیتا ہے—جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ۔ وہ شخصیت جو نہ صرف علم و عرفان کا استعارہ تھی، بلکہ دلوں کو تسخیر کر لینے والی محبتِ الٰہی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جیتی جاگتی تفسیر تھی۔ مالکِ کائنات نے آپ کو جس خمیر سے گوندھا، اس میں علم کی روشنی، فقر کی لذت، سادگی کی حلاوت اور عشقِ نبوی کا رنگ غالب تھا۔

اُن کا شباب بھی سراپا عبادت تھا۔ وہ وقت جب دنیا فانی کی رنگینیاں، نفس پرستی اور خواہشات کی ندیوں میں لاکھوں کو بہا لے جاتی ہیں، اُس وقت پیر کرم شاہ الازہریؒ نے محبتِ الٰہی کا ایسا روشن باب رقم کیا جس کی مثال صدیوں میں کہیں دکھائی دیتی ہے۔ ان کا ہر قول، ہر عمل، ہر مسکراہٹ، اور ہر خاموشی بھی علم و حکمت کی روشنی لیے ہوئے تھی۔ ان کے دامنِ کرم سے وابستہ ہونے والا ہر شخص اپنے آپ کو قربِ خدا میں محسوس کرتا تھا۔

اُن کی تحریریں، خاص طور پر تفسیر ضیاء القرآن اور ضیاء النبی، علم و عشق کا ایسا حسین امتزاج ہیں جنہیں پڑھ کر ذہن روشن اور دل پرنور ہو جاتا ہے۔ علمائے حق کے اس قافلے میں وہ مشعلِ راہ تھے جو تاریکیوں میں راستہ دکھاتی ہے۔ ان کی مجلس، ان کی نظر، اور ان کا اندازِ تربیت، سب کچھ "ربِ کریم کی قربت” کا ذریعہ تھا۔

میں نے آپ کو کبھی دیکھا نہیں، لیکن محسوس ضرور کیا ہے۔

میری آنکھیں آپ کے دیدار کی سعادت سے محروم رہیں، لیکن دل نے آپ کو ہمیشہ اپنے قریب پایا۔ آپ کا ذکر میں نے سب سے پہلے اپنے شفیق بابا جان، سفیرِ ضیاء الامت، پیر سید زاہد صدیق شاہ بخاری کی زبان سے سنا۔ اُن کی گفتگو میں جب آپ کا تذکرہ آتا، تو ان کے لہجے میں ایک عجیب سی چمک، ایک نورانی جذبہ اور عقیدت کی نمی آ جاتی—ایسا لگتا گویا آپ ہمارے سامنے موجود ہیں، ہمارے درمیان چلتے پھرتے ہیں، اور ہم سے مخاطب ہیں۔

بابا جان کا اندازِ بیان فقط الفاظ نہ تھے، وہ ایک روحانی منظر کشی تھی۔ وہ جب آپ کا ذکر کرتے، تو سامعین کی آنکھیں بند ہو جاتیں اور دل جیسے روحانی سفر پر روانہ ہو جاتا۔ یہ فقط ایک بزرگ کی اپنے مرشد سے محبت نہ تھی، بلکہ یہ وہ رشتہ تھا جسے الفاظ کی گرفت میں لانا مشکل ہے۔

بابا جان نے فقط آپ سے نہیں، بلکہ آپ کے خانوادے، آپ کی اولاد، اور آپ کے سلسلۂ ضیاء سے بھی وہی اخلاص و محبت قائم رکھی—جس طرح وفا کی جاتی ہے، جس طرح نسبتوں کو نبھایا جاتا ہے۔ اُن کا یہ تعلق، اُن کی یہ وفا، ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ سچی نسبتیں جسمانی موجودگی کی محتاج نہیں ہوتیں۔ بعض رشتے روح کے تار سے بندھے ہوتے ہیں، جو نہ وقت کے محتاج ہوتے ہیں، نہ جگہ کے۔

یہی وہ نسبت ہے جس نے ہمیں آپ کے قدموں سے جوڑے رکھا ہے۔ یہی وہ فیض ہے جس نے ہمیں آپ کی محبت میں پختہ کیا ہے۔ یہی وہ دعا ہے جو ہر روز لبوں سے خود بخود نکلتی ہے:

"یا اللہ! ہمیں اُن ہستیوں کے در کا وفادار بنا جنہیں تُو نے اپنا محبوب بنایا، اور جن کے دلوں میں تُو نے اپنی محبت کے چراغ روشن کیے۔”

اُن کے وصال کے بعد بھی اُن کا دربار ایک زندہ اور جاگتا فیض کدہ ہے۔

وہاں آج بھی محبتوں کا ہجوم ہے، عقیدتوں کا قافلہ رواں دواں ہے۔

دلوں میں ان کی یاد فقط ایک تذکرہ نہیں، بلکہ ایک مستقل کیفیت بن چکی ہے۔

ہر روز وہاں وہی روحانی سکون بکھرا ہوتا ہے،

وہی نور کی خوشبو ہر سو مہکتی ہے،

اور وہی سرور دلوں کو اپنی آغوش میں لیے رکھتا ہے—جیسے اُن کا سایہ آج بھی وہیں موجود ہو۔

ان کے آستانے پر آج بھی نقف کی تجلی رہتی ہے۔

عشق و عقیدت کے پروانے وہاں حاضر ہوتے ہیں،

اور ان کے ہجر کی گواہی ہر گوشہ دیتا ہے۔

خصوصاً حفاظ کرام کا جم غفیر جو صبح دم سے شام ڈھلنے تک قرآنِ کریم کی تلاوت میں مشغول رہتا ہے—

یہ منظر صرف آنکھوں کے لیے نہیں، دل کی آنکھ کے لیے ہے۔

یہاں ہر حرفِ قرآن اُن کے فیض کی گواہی دیتا ہے،

ہر لب سے نکلتا ہوا تلاوت کا نغمہ اُن کی روح کو ہدیۂ ثواب پیش کرتا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اُن کی روح آج بھی ان لمحوں کو محسوس کر رہی ہو،

اور ہر قاری کی زبان پر پڑھا گیا حرف اُن کے قلبِ مبارک تک پہنچ رہا ہو۔

یہ دربار فقط ایک جگہ نہیں،

یہ ایک روحانی مرکز ہے،

جہاں آ کر دلوں کو قرار ملتا ہے،

اور آنکھوں کو وہ نور نصیب ہوتا ہے جو کہیں اور کم ہی ملتا ہے ۔ 

اُن کی زندگی روشنی کا مینار تھی اور اُن کا وصال ایک غروبِ آفتاب نہیں، بلکہ نور کے سفر کا ایک نیا مرحلہ تھا۔ وہ رخصت ضرور ہوئے، مگر اُن کا فیض، اُن کی تعلیمات، اُن کی دعائیں اور اُن کی محبت آج بھی قلوب کو سیراب کرتی ہیں۔

کبھی کبھی دل بے اختیار کہہ اٹھتا ہے:

کاش ہم بھی اُس زمانے میں ہوتے،

جب ضیاء الامت کی مجلسیں سجی ہوتی تھیں،

جب الفاظ علم سے نہیں، عشق سے نکلا کرتے تھے،

جب نگاہیں، دلوں کا حال جان لیا کرتی تھیں،

اور جب خاموشی بھی درس بن جایا کرتی تھی۔

لیکن پھر دل کو قرار آتا ہے—کیونکہ یہ ہستیاں جسم سے جدا ہو سکتی ہیں، فیض سے نہیں۔

اُن کا فیض آج بھی جاری ہے، اُن کی نسبت آج بھی قائم ہے،

اور اُن کے چاہنے والے آج بھی دنیا کے ہر گوشے میں اُن کے نام کی روشنی سے منور ہو رہے ہیں۔

ہم جیسے کمزور لوگ اگر اُن کے قدموں کی خاک بھی نہ بن سکیں،

تو کم از کم اُن کے دامن سے جُڑے رہنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں۔

یہی نسبت، یہی محبت، یہی اخلاص… شاید ہماری بخشش کا وسیلہ بن جائے۔

یا اللہ! ہمیں اپنے اُن بندوں کی محبت نصیب فرما، جو تیرے محبوب کے عاشق ہیں،

اور ہمیں بھی اُن کے قافلے کا حصہ بنا،

جو تیری رضا کے متلاشی اور تیرے قرب کے راہی ہیں۔۔آمین

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے