لباس، رویے اور ایک مثبت معاشرہ۔۔تحریر۔خالد شہباز چوہان

ہمیں ایک مثبت بحث کے ساتھ چیزوں کو آگے بڑھانا ہوگا۔ یہ موضوع نیا نہیں — بہت عرصہ پہلے جب ہم نے اس مسئلے پر بات کی، تو بہت سے لوگوں نے ہماری رائے سے اختلاف کیا۔ کسی نے کہا کہ یہ ہمارے کلچر کے خلاف ہے، کسی نے اور الزامات لگا دیے۔ لیکن ہم نے ہار نہ مانی، وقتاً فوقتاً بات کرتے رہے۔

شکریہ ڈاکٹر قمر صاحب کا، جن کے پلیٹ فارم سے ہم نے کئی بار اس موضوع پر گفتگو کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ سیکھنا چاہیے کہ پسند یا ناپسند سے آگے کی چیزیں بھی ہوتی ہیں — کچھ رویے وقت کے ساتھ اگر قابو میں آ جائیں، تو یہ معاشرے کے لیے بہت بہتر ثابت ہوتے ہیں۔
حال ہی میں ہمارے دوست عمیر ڈار اور نجمی صاحب نے بھی اسی حوالے سے کچھ بات کی۔ لباس ایک بنیادی ضرورت ہے، اور یہ وہ پہلی چیز ہے جو کسی بھی شخص کے بارے میں تاثر قائم کرتی ہے۔ اگر لباس صاف ستھرا، مناسب اور سلیقے سے پہنا گیا ہو، تو بہت سی شخصی کمزوریاں بھی چھپ سکتی ہیں۔ لیکن اگر لباس ہی بدتر انداز میں زیب تن کیا گیا ہو، تو ایک باوقار شخصیت کا تاثر بھی دھندلا جاتا ہے۔

مسئلہ صرف لباس کا نہیں، بلکہ اس کے استعمال اور رویے کا ہے۔ ہم بعض اوقات لباس پہن کر عجیب و غریب حرکتیں کرتے ہیں، جیسے ہاتھوں سے جسم کے خاص حصے سہلانا، بار بار لباس کو درست کرنا، یا ایسے انداز میں تھوک دینا کہ آس پاس کا خیال ہی نہ رہے۔ یہ سب منظر ناگوار بنتے ہیں۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں ہماری آنے والی نسل کو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر سخت تنقیدی ماحول کا سامنا ہو سکتا ہے۔ وہ نوجوان جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اچھی نوکریوں پر مقامی افراد کے ساتھ کام کر رہے ہوں گے، ان کے لیے ہماری یہ غیر سنجیدہ حرکات شرمندگی کا باعث بن سکتی ہیں۔
یہ کوئی مشکل تبدیلی نہیں۔ صرف رویے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ذہنی طور پر خود کو اس معاشرے کا حصہ سمجھنا ہوگا۔ ہم سب اس معاشرے کا ایک اہم جزو ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ بہتر ہو، تو ہمیں اپنے رویے، گفتگو، لباس اور عادات پر نظرثانی کرنی ہوگی۔
آخر میں، دوستوں سے گزارش ہے کہ اس مثبت تبدیلی میں اپنا کردار ضرور ادا کریں۔ کامیابی صرف تنقید سے نہیں، عمل سے حاصل ہوتی ہے۔ آئندہ ان نکات پر تفصیل سے بات ہوگی۔ تب تک ہر فرد اپنے حصے کا چراغ ضرور جلائے۔
ان شاء اللہ، ہم ایک بہتر معاشرے کی جانب بڑھیں گے۔