اسپین کی معروف انفلوئنسر حنان الکالدے غزہ جانے والی فلوٹیلا میں شامل، چھ بچوں کی ماں

IMG_1033

اسپین کی سماجی کارکن اور انفلوئنسر حنان الکالدے جو چھ بچوں کی ماں ہیں، غزہ جانے والی فلوٹیلا گلوبل صمود کی نمایاں رکن کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ اسرائیلی حکام کی جانب سے اس مشن کی کشتی “ادارا” کو روکنے کے بعد ان کا نام مسلسل میڈیا میں زیرِ بحث ہے۔ اسی فلوٹیلا میں بارسلونا کی سابق میئر آدا کولاو سمیت دیگر معروف شخصیات بھی شامل تھیں۔

حنان الکالدے جن کا اصل نام آنا الکالدے ہے، سوشل میڈیا پر خود کو “سماجی انصاف اور امن کی کارکن” قرار دیتی ہیں اور اس وقت فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کو اجاگر کرنے میں سرگرم ہیں۔ وہ 1979 میں پیدا ہوئیں اور گرانادا و الباسیتے میں پلی بڑھیں، تاہم گزشتہ دو دہائیوں سے سویتا (Ceuta) میں مقیم ہیں۔

انہوں نے جامعہ کمپلوتنسے میڈرڈ سے سوشل ورک کی تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں مائیگریشن اور سماجی انضمام کے موضوعات پر ماسٹرز اور پوسٹ گریجویشن کیا۔ اپنے طالبعلم دور ہی سے فلسطینی تحریک کے ساتھ ہمدردی رکھتی تھیں اور بائیں بازو کی سیاست و نسوانی حقوق کی علمبردار رہی ہیں۔

حنان الکالدے کی ذاتی زندگی بھی ان کے سوشل میڈیا مواد کا حصہ ہے۔ انہوں نے اپنے شوہر امین عبدالکادر (ایک مقامی پولیس افسر، مراکشی نژاد) اور چھ بچوں کے ساتھ گھریلو زندگی کو کھل کر شیئر کیا ہے۔ ان کے بچوں کے نام انساف، ابرا، وئام، یاسمین، مراد اور یمیلہ ہیں۔ خاندان نے کووڈ-19 وبا کے دوران ایک فیملی چینل بنایا جس پر نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کے خلاف پیغامات کے ساتھ ساتھ اپنی ملبوسات کی برانڈ Kader کی تشہیر بھی کی۔

الکالدے نے سال 2000 میں اسلام قبول کیا اور دو سال بعد اپنا نام آنا سے بدل کر حنان رکھ لیا۔ ان کے مطابق اسلام قبول کرنے کے بعد انہیں ملازمتوں سے محروم ہونا پڑا، حتیٰ کہ نظریاتی اختلافات کی بنا پر ریڈ کراس سے بھی نکال دیا گیا۔

اگرچہ سوشل میڈیا پر انہیں “باربی غزہ” کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، مگر وہ اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس طرح ناقدین خود ہی بحث کو فلسطین کی طرف موڑ دیتے ہیں۔

ان کے بیٹے ابرا نے حالیہ دنوں میں ایک ٹی وی پروگرام پر جذباتی انداز میں کہا کہ:

“میں اپنی ماں سے کبھی جدا نہیں ہوا، یہ میرے لیے بہت مشکل وقت ہے۔”

حنان کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان ان کی اس مشن کو “ان کی زندگی کا مقصد” سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑا ہے۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے