مراکشی سمندر میں ڈوبنے والی کشتی،ایشئین مہاجروں کا نیا رستہ ،اسپین حکومت کی تحقیقات

یونان اٹلی ترکی کا رستہ کیوں تبدیل ہورہا ہے
کیناریا جرائر سے پہنچنے والے مہاجرین کے ساتھ کیا ہوتا ہے
ایشیائی باشندے کب اس رستہ سے آنا شروع ہوئے
مقامی حکومت اور یورپی یونین کے اسپانش ممبران کا ردعمل
15جنوری 2025کو ڈوبنے والی کشتی جس میں 50افراد سوار تھے۔جن میں 44کے قریب پاکستانی تھے جو تمام جان کے بازی ہار گئے۔اسپین کی وزارت داخلہ اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ کیا بحیرہ روم کے ذریعے یورپ میں داخل ہونے والے مہاجر راستے اب اسپین کے کینیاریا جزائر کی طرف مڑ گئے ہیں۔یہ تحقیقات اس وقت شروع ہوئیں جب ایل ہیرو جزیرے پر دو کشتیوں کے ذریعے 50 سے زائد ایشیائی باشندے پہنچے۔
پہلی کشتی کو 31 اگست 2024 میں کو بچایا گیا، جس میں 174 افراد سوار تھے، جن میں سے 48 پاکستانی اور تین شامی تھے۔ دوسری کشتی جس میں 76 افراد سوار تھے، جن میں سے 65 نے خود کو پاکستانی بتایا، جبکہ کچھ افغان تھے۔
سیکورٹی فورسز کے مطابق دونوں کشتیاں کا نقطہ آغاز موریطانیہ تھا جو کیناریا جزائر تک پہنچیں
اس قبل ہمیں 18 سال پیچھے جانا ہوگا، 15 ستمبر 2006 کوجب ہسپانوی حکام نے ایک کشتی کو بچایا جس میں 216 ایشیائی مہاجرین تھے (زیادہ تر پاکستانی)، جو بظاہر کینیاریا جزائر کا رخ نہیں کر رہی تھی لیکن حادثاتی طور پر تینریف کے قریب خراب ہو گئی۔تب سے ایشیائی مہاجرین یا پناہ گزینوں کی کینیاریا راستے سے آمد کبھی کبھار ہوئی ہے، وہ بھی چھوٹی کشتیوں میں، جن میں شاذ و نادر ہی آدھی درجن سے زیادہ افراد شامل تھے۔
فرنٹیکس کے اعداد و شمار کے مطابق، اس سال اب تک 2,618 پاکستانی غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہوئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر، یعنی 1,581، بحیرہ روم کے مرکزی راستے سے آئے؛ 484 مشرقی بحیرہ روم کے راستے؛ اور 444 بلقان کے زمینی راستے سے۔
افغان مہاجرین کی تعداد 9,743 ہے، جن میں سے 7,824 مشرقی بحیرہ روم سے، 1,341 بلقان سے، اور 450 مرکزی بحیرہ روم کے راستے سے یورپ پہنچے ہیں۔
کینیاریا جزائر میں ہنگامی خدمات اور مہاجرین کی میزبانی کرنے والے وسائل کے ذرائع نے بھی ان کشتیوں میں ایشیائی مہاجرین کی موجودگی پر حیرت کا اظہار کیا ہے، لیکن وہ فی الحال یہ نتیجہ نکالنے سے قاصر ہیں کہ آیا دیگر راستوں کے سخت کنٹرول کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
کینیاریا جزائر میں ہسپانوی پناہ گزین امدادی کمیشن (CEAR) کے کوآرڈینیٹر، جوآن کارلوس لورینزو کا خیال ہے کہ لیبیا، تیونس یا ترکی جیسی جگہوں پر سرحدوں کی سخت نگرانی کی وجہ سے مہاجرین اور پناہ گزین نئے راستے تلاش کر رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ آیا یہ لوگ پہلے تیونس یا لیبیا کے راستے یورپ پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے اور پھر شمالی افریقہ کے راستے موریطانیہ پہنچے، یا پھر وہ براہ راست موریطانیہ پہنچے تاکہ کینیری جزائر کی طرف سفر کریں۔
فرنٹیکس کے ستمبر کے آخر تک کے اعداد و شمار کے مطابق، بحیرہ روم اب بھی سمندر کے ذریعے یورپ میں مہاجرین کے داخلے کا سب سے بڑا راستہ ہے، جس میں مرکزی راستے (لیبیا یا تیونس سے اٹلی تک) پر 47,710 اور مشرقی راستے (ترکی سے یونان تک) پر 45,610 مہاجرین پہنچے ہیں۔
دونوں راستوں پر، اکثریت ایشیائی افراد کی ہے: مرکزی بحیرہ روم میں بنگلہ دیشی (9,720) اور شامی (8,501)، جبکہ مشرقی بحیرہ روم میں شامی (18,357) اور افغان (8,363) شامل ہیں۔
کینیاریا راستے پر تعداد نسبتاً کم ہے، جہاں ستمبر کے آخر تک 30,616 مہاجرین کو بچایا گیا، لیکن یورپی حکام نے ان مہینوں میں خبردار کیا ہے کہ اس راستے کی صورتحال تشویشناک ہے کیونکہ یہ مسلسل بڑھ رہا ہے، جبکہ بحیرہ روم کے راستے میں کمی کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔
اس وقت کینیاریا جزائر تک کشتیوں یا کاجوکوں کے ذریعے پہنچنے والے مہاجرین میں سب سے عام قومیتیں یہ ہیں: مالی (10,099)، سینیگال (5,198)، مراکش (2,724)، اور گنی (2,028)۔
جو مہاجر کینیاریا جزائر کی طرف سے اسپین میں داخل ہوتے ہیں ان کا مستقبل کیا ہے اور وہ کن مسائل کا شکار ہوتے ہیں اس جانب سے اب تک سینیگال، مالی، گیمبیا اور گنی کناکری کے افراد بحر اوقیانوس کے راستے پر زیادہ عام طور پر پائے جانے والے قومیتیں ہیں۔
اس رستہ میں اسپین کی کئی ایک انسانی حقوق کی تنظیمات کام کرتی ہیں کئی بار سمندر میں پھنسی کشتیوں کو بھی یہ تنظیمیں ریسکیو کرتی ہیں۔اور جب کشتیاں کنارے لگ جاتی ہیں ان کے مسافر مہاجروں کو وہاں کی حکومت گرفتار کر لیتی ہے،یا بارڈر کراس کرکے وہاں موجود ریڈکراس کے کیمپ تک پہنچ جاتے ہیں ۔ ریڈ کراس اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیمیں ان مہاجرین کو لے لیتی ہیں جو مختلف مہاجر کیمپوں میں منتقل کر دیتی ہیں ان میں جو بچے ہوتے ہیں ان کو چائیلڈ ہوم میں منتقل کر دیا جاتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو اسپین کے مختلف علاقوں میں منتقل کردیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں
حادثے کی خبر سامنے آنے کے بعد اسپانش کئی علاقائی اور قومی سیاست دانوں نے مرنے والوں کیلئے تعزیت کا اظہار کیا۔کینری جزائر کے صدر فرناندو کلاویجو نے کہا کہ“ہم صرف تماشائی نہیں بن سکتے۔ ریاست اور یورپ کو اقدامات کرنے ہوں گے۔ اوقیانوس افریقہ کا قبرستان نہیں بن سکتا۔ وہ اس انسانی المیے سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ پچاس حالیہ متاثرین کے انتقال پر میرا گہرا دکھ ہے۔”
دوسری جانب یورپی پارلیمنٹ کی رکن آئرین مونتیرو نے یورپ میں بڑھتے ہوئے نفرت انگیز اور نسل پرستانہ رویوں کی مذمت کی:اور کہا کہ “سرحدوں پر ہونے والی یہ اموات بالکل روکی جا سکتی تھیں، لیکن یورپ میں نسل پرستی اپنے عروج پر ہے۔ سرحدیں استقبال کی جگہ ہونی چاہئیں، نہ کہ انسانی حقوق کی پامالی اور موت کا مقام۔”مونتیرو نے اپنے بیان میں کہا کہ“پچاس افراد سمندر میں تیرہ دن امداد کے انتظار میں مر گئے۔ کیا ایسا ہی ہوتا اگر یہ سفید فام لوگ ہوتے؟ نسل پرستی اور ادارہ جاتی تشدد جان لیتے ہیں۔ سرحدیں انسانیت اور حقوق کے احترام کی جگہ ہونی چاہئیں، موت اور حقوق کی پامالی کی نہیں۔”
اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ سال 2024میں سمندری راستے یورپ پہنچنے کی کوشش میں دس ہزار سے زائد افراد سمندر میں غرق ہو چکے ہیں
غیر قانونی مہاجرین کی آمد کے اعداد و شمار
2024 میں اسپین میں غیر قانونی طور پر پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد 63,970 رہی، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 12.5% زیادہ ہے، جب 56,852 افراد اسپین پہنچے تھے۔
کیناریا جزائر میں 46,843 افراد پہنچے، جو 2023 میں 39,910 اور 2006 کی مشہور “کینو بحران” (31,678) کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔