اسپین نے نازی کیمپوں میں ہزاروں ہسپانوی شہریوں کی ہلاکتوں کی پہلی سرکاری تحقیقات کا آغاز کر دیا

IMG_0079

اسپین نے نازی ظلم و ستم کے شکار ہسپانوی متاثرین کی حقیقت جاننے کے لیے تحقیقات شروع کر دی ہیں تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ آیا ہٹلر اور فرانکو کی حکومتوں کے درمیان کوئی مشترکہ حکمتِ عملی موجود تھی۔

پہلی بار، اسپین کے انسانی حقوق اور جمہوری یادداشت کے دفترِ استغاثہ نے ان ہزاروں ہسپانویوں کی جبری جلاوطنی اور ہلاکت کی تحقیقات شروع کی ہیں جنہیں دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں کے اذیتی کیمپوں میں بھیجا گیا تھا۔

یہ تحقیقات استغاثہ کی سربراہ دولوریس دیلگادو کی نگرانی میں ہو رہی ہیں اور ان ہسپانوی ریپبلکن جلاوطن افراد پر مرکوز ہیں جو 1936 سے 1939 کی ہسپانوی خانہ جنگی میں فرانکو کی فتح اور فوجی آمریت کے قیام کے بعد فرانس فرار ہو گئے تھے۔

نازیوں کے فرانس پر قبضے کے دوران ان میں سے بہت سے افراد گرفتار کر لیے گئے اور انہیں ماوتھاؤزن اور گوزن جیسے اذیتی کیمپوں میں بھیج دیا گیا، جہاں انہیں جبری مشقت، تشدد اور قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا۔

دیلگادو کی تحقیق کا مقصد یہ جانچنا ہے کہ آیا فرانکو کی حکومت نے نازی جرمنی سے ان افراد کو کیمپوں میں بھیجنے میں تعاون کیا تھا، اور یہ بھی کہ اس ظلم کے ذمے دار کون تھے۔ یہ اقدام اُس فائل کے موصول ہونے کے بعد سامنے آیا ہے جو سینٹرل سول رجسٹری نے 4,435 ہسپانویوں کی سرکاری اموات کے اندراج کے لیے بھیجی تھی، جن کی بڑی تعداد آج تک شناخت نہیں ہو سکی۔

یہ پہلا موقع ہے کہ ہسپانوی ریاست نے اس موضوع پر سرکاری سطح پر کوئی تحقیقات شروع کی ہیں۔ یہ اقدام ماوتھاؤزن کیمپ کی آزادی کی 80ویں سالگرہ (مئی 1945) کے موقع پر کیا گیا ہے۔

یہ تحقیقات اسپین کے “جمہوری یادداشت کے قانون” کے تحت کی جا رہی ہیں، جس کا مقصد ماضی کی ناانصافیوں کا ازالہ کرنا اور فرانکو آمریت کے متاثرین کو تسلیم کرنا ہے۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے