اسرائیل نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کو “دہشت گردی کا انعام” قرار دے دیا

اسرائیلی حکومت نے اتوار کے روز برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام “دہشت گردی کا انعام” ہے۔
اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ “حماس کے رہنماؤں نے اس اعلان کو 7 اکتوبر کے قتل عام کا ثمر قرار دیا ہے، جو نہ صرف یہودیوں کے ہولوکاسٹ کے بعد سب سے بڑی قتل و غارت گری تھی بلکہ اس سے حماس جیسی تنظیم کے لیے حمایت بھی مزید مضبوط ہوئی ہے۔”
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ اعلان “امن کو فروغ نہیں دیتا بلکہ خطے کو مزید غیر مستحکم کرتا ہے اور مستقبل میں امن کے امکانات کو نقصان پہنچاتا ہے۔” اسرائیل نے اس فیصلے کو “تباہ کن” قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست کا معاملہ حتمی مذاکراتی امور سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
اسرائیلی حکومت کے مطابق فلسطینی اتھارٹی نے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں، جن میں تشدد کی حوصلہ افزائی کا خاتمہ، “قتل پر ادائیگیوں” کی پالیسی کا خاتمہ اور دہشت گردی کے خلاف اقدامات شامل ہیں۔ اسرائیل نے بطور مثال رام اللہ کے قریب گزشتہ ہفتے راکٹوں کی موجودگی کی نشاندہی کی۔
مزید کہا گیا کہ “فلسطینی اتھارٹی مسئلے کا حصہ ہے، حل کا نہیں۔ اسی وجہ سے امریکہ نے اس پر پابندیاں عائد کی ہیں اور اس کے رہنماؤں کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے اپنے ملک میں داخلے سے روک دیا ہے۔”
اسرائیل نے واضح کیا کہ وہ کسی بھی “غیر حقیقی اور مسلط کردہ” فارمولے کو قبول نہیں کرے گا جس سے اس کی دفاعی سرحدیں خطرے میں پڑیں۔ بیان میں کہا گیا کہ اگر یہ ممالک واقعی خطے میں امن چاہتے ہیں تو انہیں حماس پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ مغویوں کو رہا کرے اور فوری طور پر غیر مسلح ہو۔
اسرائیلی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ برطانیہ اور دیگر ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کے یکطرفہ تسلیم کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔
یاد رہے کہ اتوار کو برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک علامتی مگر اہم قدم ہے جس کا اعلان ان ممالک نے گزشتہ چند ماہ سے اشاروں میں کیا تھا۔ توقع ہے کہ آئندہ چند گھنٹوں میں مزید سات ممالک، جن میں فرانس بھی شامل ہے، اس اقدام میں شریک ہوں گے۔