اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فیلیپ ششم کا اسرائیل سے مطالبہ: ’’غزہ میں قتلِ عام بند کریں، اب مزید اموات نہیں‘‘

میڈرڈ، 24 ستمبر (دوست نیوز)شاہِ اسپین فلپ ششم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں جاری ’’قتلِ عام‘‘ کو فوری طور پر روکے اور مزید بے گناہ جانوں کا ضیاع نہ کرے۔انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ اُس قوم کے نام پر ہو رہا ہے ’’جو تاریخ میں سب سے زیادہ مصائب سہہ چکی ہے‘‘ اور جس سے اسپین کے گہرے تاریخی روابط ہیں۔
شاہی خطاب میں کہا گیا:’’ہم خاموش نہیں رہ سکتے، نہ ہی اس تباہی اور بھوک، جبری بے دخلی اور ہزاروں شہریوں کی ہلاکتوں سے نظریں چرا سکتے ہیں۔ یہ وہ اعمال ہیں جو اقوام متحدہ کی بنیادی اقدار کے بالکل برعکس ہیں، انسانی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہیں اور عالمی برادری کے لیے باعثِ شرمندگی ہیں۔‘‘
فلپ ششم نے کہا کہ اسپین پر لگائے جانے والے یہودی دشمنی (اینٹی سیمیٹزم) کے الزامات بے بنیاد ہیں، کیونکہ اسپین اپنے سفاردی (یہودی النسل) ورثے پر فخر کرتا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 2015 میں اسپین نے متفقہ قانون کے تحت سفاردی یہودیوں کی نسل سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کو شہریت دی، اور اب تک 72 ہزار افراد اس سہولت سے مستفید ہو چکے ہیں۔انہوں نے کہا: ’’اسی وجہ سے ہمیں اور زیادہ دکھ اور حیرت ہے کہ اسرائیلی حکومت غزہ میں کیا کر رہی ہے۔ اسی لیے ہم پکار رہے ہیں، التجا کر رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں: اس قتلِ عام کو ابھی روکا جائے۔‘‘
شاہِ اسپین نے واضح کیا کہ اسپین ’’حماس کے قابلِ نفرت دہشت گردی‘‘ اور خاص طور پر 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی عوام کے خلاف ہونے والی ’’خونریز کارروائی‘‘ کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، مگر یہ بھی لازمی ہے کہ اسرائیل پورے غزہ اور مغربی کنارے میں بین الاقوامی انسانی قوانین پر مکمل طور پر عمل کرے۔انہوں نے مزید کہا کہ اسپین اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسانی امداد میں کسی تاخیر کے بغیر غزہ پہنچائی جائے، ایک باضابطہ جنگ بندی کی ضمانت دی جائے اور حماس کی قید میں موجود تمام مغویوں کو فوراً رہا کیا جائے۔
شاہ فلپ ششم نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اپنی ذمہ داری قبول کرے اور فوری طور پر ایسا پائیدار حل تلاش کرے جس میں فلسطین اور اسرائیل دونوں ریاستوں کا قیام تسلیم کیا جائے۔ ان کے مطابق فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک کی بڑھتی ہوئی تعداد ایک ’’منصفانہ اور حتمی علاقائی امن‘‘ کی راہ ہموار کر سکتی ہے، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اسرائیل کے عالمی سطح پر تسلیم شدہ وجود پر مبنی ہو۔