کیا وزن کم کرنے کی دیوانگی ہمیں پھر پرانی پٹڑی پر لے جا رہی ہے؟

IMG_0661

جب لگ رہا تھا کہ خوبصورتی کے معیار طاقت اور لمبی عمر کی طرف بڑھ رہے ہیں، ایسے میں اوزیمپک (Ozempic) اور ویگووی (Wegovy) جیسی ادویات کے بڑھتے ہوئے استعمال نے ایک بار پھر ایسے “آئیڈیل ماڈلز” کو سامنے لا کھڑا کیا ہے جو صحت سے زیادہ دُبلی پتلی جسمانی ساخت پر زور دیتے ہیں۔

امریکی اسٹاک سے یہ دوا اس وقت غائب ہو گئی جب کچھ نامور شخصیات نے اسے وزن کم کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ برطانیہ میں اشتہاری نگران ادارے ASA نے “انتہائی دُبلی پتلی” ماڈلز کی تصاویر پر مارکس اینڈ اسپینسر، نیکسٹ اور زارا جیسی برانڈز کے خلاف کارروائی کی۔ حال ہی میں معروف اداکارہ لِلی کولنز کی نیویارک فیشن ویک میں انتہائی دُبلی صورت نے مداحوں کو تشویش میں ڈال دیا۔

ماہرینِ نفسیات خبردار کر رہے ہیں کہ کھانے پینے کی بے ترتیبیوں (TCA) کے باعث اسپتالوں میں داخل ہونے والوں کی عمریں خطرناک حد تک کم ہو رہی ہیں۔ اسپین میں کیے گئے ایک سروے میں 31 سے 50 برس کی عمر کے افراد میں سے تقریباً 50 فیصد نے جسمانی ساخت کے حوالے سے عدم اطمینان اور 28 فیصد نے کھانے پر قابو نہ رکھ پانے کی شکایت کی۔

غذا اور صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اوزیمپک اور اس جیسی ادویات ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اہم پیش رفت ہیں، لیکن ان کا استعمال “صرف تین کلو وزن گھٹانے” جیسی سطحی خواہشات کے لیے خطرناک ہے۔ سخت ڈائٹس اور ادویات کے غلط استعمال سے جسم میں وٹامن کی کمی، پٹھوں کا سکڑنا، تھکن اور ہارمونی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

سابق ٹینس اسٹار سرینا ولیمز نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اوزیمپک کے ذریعے آٹھ ماہ میں 14 کلو وزن کم کیا۔ اس اعلان نے کھیلوں اور فیشن کی دنیا میں بحث چھیڑ دی کہ جب محنت اور نظم و ضبط کی علامت کھلاڑی بھی دوا کا سہارا لیں گے تو عام لوگ کیسے پیچھے رہیں گے؟

ماہرینِ نفسیات کے مطابق مسئلہ صرف وزن کم کرنے کا نہیں بلکہ “کبھی کافی نہ ہونے کے احساس” کا ہے۔ بہت سی خواتین برسوں ڈائٹس اور ورزش کے باوجود مطمئن نہیں ہوتیں، اور جب کوئی دوا فوری نتیجہ دینے کا وعدہ کرتی ہے تو وہ ممکنہ خطرات کو نظرانداز کر دیتی ہیں۔ اس کا نتیجہ ایک ایسی زندگی ہے جو صرف جسمانی ساخت کے گرد گھومتی ہے۔

اوزیمپک اور ویگووی جیسی دوائیں یہاں رہنے کے لیے آئی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انہیں واقعی صرف اُن مریضوں کے لیے استعمال کیا جائے گا جنہیں اس کی ضرورت ہے یا پھر یہ بھی ایک نیا “فیشن ٹرینڈ” بن جائے گا؟

ماہرین کے مطابق اصل شفا اس وقت ممکن ہے جب ہم اپنے جسم کے ساتھ صلح کر لیں، حرکت کو سزا کے بجائے خوشی سمجھیں اور کھانے کو خوف کے بجائے لچک کے ساتھ اپنائیں۔ ورنہ یہ دوائیں بھی محض ایک اور عارضی سہارا ثابت ہوں گی۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے