“یہ ایک اذیت ناک حراستی کیمپ تھا، گویا گوانتانامو اور آؤشوٹز کے درمیان”،اسرائیل سے ڈی پورٹ کیے گئے ہسپانوی رکنِ پارلیمنٹ

یروشلم میں حراست کے بعد اسپین واپس پہنچنے والے “گلوبل صمود فلوٹیلا” کے کارکنان نے اسرائیلی حکام پر سنگین زیادتیوں کے الزامات عائد کیے ہیں۔ ان کارکنان کا کہنا ہے کہ انہیں نیگیو کے صحرا میں واقع سہارونیم جیل میں جسمانی اور ذہنی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
کمپرومیس پارٹی کے رکنِ پارلیمنٹ خوان بوردیرا نے اسرائیلی جیل کو “گوانتانامو اور آؤشوٹز کے درمیان ایک حقیقی حراستی کیمپ” قرار دیا۔ انہوں نے ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا:“یہ وقت کے ساتھ ثابت ہوگا کہ وہاں ہونے والے مظالم کم از کم جسمانی اور ذہنی تشدد کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہم سب کو ایک ایسے کیمپ میں رکھا گیا جو نہ گوانتانامو سے کم تھا، نہ آؤشوٹز سے۔”
کارکنان کے مطابق انہیں دورانِ حراست طبی امداد سے محروم رکھا گیا اور کئی مواقع پر ان کی تذلیل کی گئی۔
پیر کی رات 27 اسپینش کارکن اسپین واپس پہنچے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ رییس ریگو، جو ابھی تک قید میں ہیں، کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق رییس ریگو پر ایک خاتون اہلکار کو کاٹنے کا الزام ہے اور انہیں کم از کم بدھ تک حراست میں رکھا جائے گا۔
پودیموس بیلیارز کی رہنما لوسیا میونیز نے ہوائی اڈے پر میڈیا سے گفتگو میں کہا:“ہم سب واپس نہیں آئے۔ ہماری ساتھی رییس ریگو ابھی بھی وہاں ہیں۔ ہم تب تک خاموش نہیں بیٹھیں گے جب تک وہ بھی آزاد نہیں ہو جاتیں۔”
ایک اور کارکن الیخاندرا مارتینیز نے بتایا کہ اتوار کی رات رییس ریگو کو “انتہائی پرتشدد” انداز میں کمرے سے نکالا گیا، بالوں سے گھسیٹ کر تنہائی والی قید میں منتقل کیا گیا، اور اس کے بعد سے ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔
کارکنان نے مزید بتایا کہ انہیں “کم شدت کی اذیت” اور “ذلت آمیز سلوک” کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک کارکن کے مطابق:“ہمیں لوٹا گیا، مارا گیا، ذلیل کیا گیا اور مختلف چالاک طریقوں سے اذیت دی گئی۔ ہمیں کھلی فضا میں قائم ایک اعلیٰ سکیورٹی سیل میں رکھا گیا، جہاں اسرائیلی وزیرِ خارجہ نے کیمروں کے سامنے ہمیں دہشتگرد کہا۔ حتیٰ کہ ہمیں دوا تک نہیں دی گئی۔”
ان واقعات پر اسپین میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ رییس ریگو کی فوری رہائی اور واقعے کی بین الاقوامی سطح پر تحقیقات کرائے۔