ٹرمپ کی دھمکیاں حکومتِ اسپین کو پریشان نہیں کرتیں: “اگر وہ ہم پر تنقید کرے تو ہمیں فائدہ ہوتا ہے”

IMG_1642

مونکلوآ کا مؤقف: وزیراعظم سانچیز بطور متبادل عالمی رہنما ابھر چکے ہیں، امریکی صدر کی تنقید کا کوئی اثر نہیں ہوا

میڈرڈ (دوست خصوصی رپورٹ)اسپین کی حکومت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تازہ دھمکیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے الزامات سے نقصان کے بجائے فائدہ ہوتا ہے۔ ٹرمپ نے حال ہی میں کہا تھا کہ “شاید اسپین کو نیٹو سے نکال دینا چاہیے”، جس پر حکومتِ اسپین نے غیر معمولی سکون کا مظاہرہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم پیدرو سانچیز خود کو ٹرمپ کے “انتہائی مخالف” کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ مونکلوآ (وزیراعظم ہاؤس) میں سمجھا جاتا ہے کہ ٹرمپ “انتہا پسند دائیں بازو کے بین الاقوامی اتحاد” کی علامت ہیں، جبکہ سانچیز سماجی انصاف، مساوات، ماحولیاتی تحفظ اور بین الاقوامی تعاون جیسے موضوعات پر اس کے برعکس مؤقف رکھتے ہیں۔

حکومتی ذرائع کے مطابق: “اگر ٹرمپ ہم پر تنقید کرے تو یہ ہمارے لیے اچھا ہے۔” ان کے بقول، عوامی سطح پر یہ تاثر بنتا ہے کہ حکومت فلاحی ریاست، صحت، تعلیم، رہائش اور سماجی بہبود جیسے مسائل پر ڈٹی ہوئی ہے۔

نائب وزیراعظم ماریا جیسوس مونتیرو نے واضح کیا کہ اسپین اپنی دفاعی ذمہ داریاں ضرور پوری کرے گا، مگر عوامی خدمات کے بجٹ میں کٹوتی نہیں کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا، “ہم ایک سوشل ڈیموکریٹک حکومت ہیں، اور ہمارے لیے ضروری ہے کہ دفاعی اخراجات کے نام پر صحت، تعلیم یا سماجی بہبود کے فنڈز میں کمی نہ ہو۔”

حکومت کو پارلیمانی کمزوری کا بھی سامنا ہے کیونکہ اس کے اتحادی جماعتیں، حتیٰ کہ سمار پارٹی بھی، دفاعی اخراجات میں اضافے کی حامی نہیں۔ اسی لیے حکومت نے 10.471 ارب یورو کے دفاعی منصوبے کو پارلیمنٹ کے بجائے کابینہ کے ذریعے منظور کیا تاکہ مخالفت سے بچا جا سکے۔

اگرچہ حکومت نے ہدایت دی ہے کہ ٹرمپ کی دھمکیوں کا براہِ راست جواب نہ دیا جائے، لیکن اندرونِ خانہ بےچینی پائی جاتی ہے۔ ایک حکومتی اہلکار نے کہا: “ہم کسی بیرونی طاقت کو اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ہمیں بتائے کہ ہمیں کتنا خرچ کرنا ہے۔”

سیکریٹری آف اسٹیٹ رافائل سیمانکاس نے سوشل میڈیا پر لکھا: “ایک غیر ملکی آمرانہ ذہنیت رکھنے والا شخص اسپین کو دھمکا رہا ہے، اور دائیں بازو کا رہنما اس کے ساتھ کھڑا ہے۔”

ٹرمپ کی یہ پہلی دھمکی نہیں۔ گزشتہ نیٹو اجلاس میں بھی انہوں نے اسپین کی معیشت کو “تباہ کرنے” کا عندیہ دیا تھا، مگر حکومت کے مطابق ان بیانات کا کوئی عملی اثر نہیں ہوا۔ سرمایہ کاری بدستور جاری ہے، اور ستمبر کے آخر میں سانچیز نے نیویارک میں گولڈمین سیکس، بروک فیلڈ، سی ٹی آئی اور سوروس فنڈ منیجمنٹ سمیت بڑی امریکی کمپنیوں کے نمائندوں سے ملاقات کی۔

سانچیز نے بارہا کہا ہے کہ اسپین کو اپنے تجارتی تعلقات کو متنوع بنانا ہوگا۔ ان کی توجہ لاطینی امریکہ (جیسے برازیل، چلی، کولمبیا) کے رہنماؤں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے پر ہے، تاکہ یورپ میں بڑھتی ہوئی دائیں بازو کی لہر کے مقابلے میں ترقی پسند اتحاد قائم کیا جا سکے۔

چین کے ساتھ بھی اسپین نے حالیہ برسوں میں تعلقات مستحکم کیے ہیں، باوجود اس کے کہ یورپی کمیشن نے اس پر تنبیہ کی تھی۔ سانچیز چاہتے ہیں کہ اسپین یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک “پل” کا کردار ادا کرے۔

مونکلوآ کا کہنا ہے کہ اسپین کی بین الاقوامی حیثیت کم نہیں ہوئی، اور نہ ہی نیٹو سے نکالے جانے کا کوئی عملی امکان موجود ہے۔ ان کے بقول، “ہم نے اپنی پوزیشن مضبوط کی ہے، اور دنیا میں ہمارا کردار واضح ہے۔”

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے