حکومت نے آئین میں اسقاطِ حمل کے حق کو محفوظ بنانے کے لیے باضابطہ عمل شروع کر دیا

میڈرڈ (دوست مانیٹرنگ ڈیسک)اسپین حکومت نے آئین میں اسقاطِ حمل (Aborto) کے حق کو شامل کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ ترمیم بغیر پارلیمان (کورتس) کو تحلیل کیے اور عام انتخابات کرائے ممکن ہوگی۔ وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی موجودہ مدتِ اقتدار پوری کرنا چاہتے ہیں اور اس دوران ایسی پالیسی اقدامات متعارف کرا رہے ہیں جو حکومتی ایجنڈے کو آگے بڑھائیں۔
منگل کے روز کابینہ کے اجلاس کے بعد بتایا گیا کہ PSOE اور Sumar جماعتوں نے آئینی ترمیم کے ایک مشترکہ مسودے پر اتفاق کر لیا ہے۔ اب یہ تجویز کونسل آف اسٹیٹ کے جائزے کے بعد پارلیمان میں پیش کی جائے گی۔ حزبِ مخالف پاپولر پارٹی (PP) نے اس ترمیم کی مخالفت کر دی ہے۔
حکومت نے یہ آئینی ترمیم آئین کے آرٹیکل 167 کے تحت پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو “عام ترمیم” کہلاتی ہے اور اس کے لیے ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ دونوں میں تین پانچویں اکثریت درکار ہوتی ہے۔ منظوری کے بعد، اگر کسی بھی ایوان کے کم از کم ایک دسویں حصے کے ارکان مطالبہ کریں تو پندرہ دن کے اندر ریفرنڈم کرایا جا سکتا ہے۔
ترمیم کا مقصد آئین کے آرٹیکل 43 میں ایک نیا ذیلی نکتہ شامل کرنا ہے، جس کا مجوزہ متن یہ ہوگا:
“خواتین کو اسقاطِ حمل کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس حق کے استعمال کو عوامی ادارے یقینی بنائیں گے تاکہ اس سہولت کی فراہمی مساوی شرائط میں ممکن ہو اور خواتین کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔”
ذرائع کے مطابق یہ ایک “حساس” معاملہ ہے، اور PSOE اور Sumar کے درمیان اس پر تفصیلی مذاکرات ہوئے۔ Sumar نے اس مسئلے پر زیادہ پیش رفت اور مضبوط آئینی ضمانت کا مطالبہ کیا تھا۔
دوسری جانب، میڈرڈ کی صدر ایزابل دیاث آیوسو نے وزیر اعظم سانچیز کی اس پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “مجھے کسی مرد سے اسقاطِ حمل پر سبق لینے کی ضرورت نہیں، میں خود دو بار اپنے بچوں کو کھو چکی ہوں۔”
یوں اسپین کی حکومت نے ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک بار پھر آئینی سطح پر صنفی حقوق سے متعلق بڑی بحث کو جنم دے دیا ہے۔