بارسلونا میں یوگا کی استاد کا شکوہ: “ہزار یورو سے کچھ زیادہ ملتے ہیں، رونے کو دل چاہتا ہے”

Screenshot

Screenshot

بارسلونا میں زندگی کے اخراجات مسلسل بڑھنے کے باعث کئی شعبوں کے لیے گزر بسر مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ تنخواہیں اور رہائش کے نرخ ایک دوسرے کے الٹ سمت میں بڑھ رہے ہیں، جس سے دارالحکومتِ کاتالونیا میں بہتر مستقبل کی منصوبہ بندی تقریباً ناممکن بن گئی ہے۔

انہوں نے حال ہی میں ٹک ٹاک کے صفحہ Talent Match سے گفتگو میں کہا یوگا کی ایک استاد نے اپنے کم معاوضے پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ “ہزار یورو سے کچھ زیادہ ملتے ہیں، یہ تو رونے والی بات ہے”، استاد نے بتایا کہ عوامی ادارے خود مختار (آتونومو) کارکنوں کو مناسب امداد نہیں دیتے۔انہوں نے کہا “میں ہزار یورو سے تھوڑا زیادہ کماتی ہوں، یہ بہت کم ہے”، 

ان کے مطابق خود مختار کارکنوں کے لیے مقررہ حدیں بھی ناانصافی پر مبنی ہیں۔ “پہلے درجے میں اگر 0 سے 660 یورو تک منافع ہو تو بھی کم از کم 230 یورو ادا کرنا پڑتا ہے، جو ناقابلِ برداشت ہے”، انہوں نے شکایت کی۔

یوگا کی تدریس کے لیے مخصوص تربیت اور سند درکار ہوتی ہے، مگر تنخواہ اس معیار کے مطابق نہیں۔ “میں جنرالیتات سے منظور شدہ ہوں، امتحان دیا ہے، کاتالان یوگا اسکول سے رجسٹرڈ ہوں اور ROPEC میں میرا اندراج ہے۔ مگر ہمیں محض ‘مانیٹر دے لیئورے’ (تفریحی نگران) کے درجے میں رکھا گیا ہے، حالانکہ ہمیں فزیوتھراپی، اوسٹیوپیتھی اور دیگر علوم کا علم ہونا ضروری ہے”، 

یہ صورتِ حال صرف یوگا اساتذہ تک محدود نہیں۔ اسی طرح کی مثال جولیا کی ہے، جو فزیوتھراپسٹ سے صفائی کے شعبے میں آگئیں۔ انہوں نے کہا، “اب میں زیادہ کماتی ہوں اور بہتر زندگی گزار رہی ہوں۔”

فزیوتھراپی میں انہیں عارضی معاہدے، مختصر نوکریاں اور کم اجرت ملتی تھی۔ خود مختار کے طور پر کاغذی کارروائی کے جھنجھٹ کے ساتھ گزارا ممکن نہ تھا۔ صفائی کے کام میں انہیں ذہنی سکون، مالی آزادی اور سب سے بڑھ کر خوشی ملی۔

دوسری جانب کئی نوجوان بہتر مواقع کی تلاش میں بیرونِ ملک جا رہے ہیں۔ زکا، جو بادالونا کا نوجوان انجینئر ہے، آسٹریلیا میں تعمیراتی کام کے دوران روزانہ تقریباً 400 ڈالر کماتا تھا۔ اسی طرح ایک خلائی انجینئر خاتون نے بھی جرمنی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا، جہاں وہ کہتی ہیں کہ “تین گنا زیادہ تنخواہ ملتی ہے اور میں اکیلی رہ سکتی ہوں۔”

ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بارسلونا میں بڑھتی معاشی دباؤ اور کم تنخواہوں کے باعث کئی پڑھے لکھے افراد نہ صرف شعبہ بلکہ ملک بدلنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے