جنوبی افریقہ نے 130 ایسے فلسطینیوں کو ملک میں داخلے کی اجازت دے دی جن کے پاس سفری دستاویزات موجود نہیں
Screenshot
جوہانسبرگ، 14 نومبر (دوست مانیٹرنگ ڈیسک)جنوبی افریقہ نے 130 ایسے فلسطینیوں کو ملک میں داخلے کی اجازت دے دی جن کے پاس سفری دستاویزات موجود نہیں تھیں۔ حکام نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کی جانچ کریں گے کہ کس نامعلوم اور غیر رجسٹرڈ تنظیم نے ان کے سفر کا انتظام غیر ذمہ داری کے ساتھ کیسے کیا۔
جنوبی افریقہ طویل عرصے سے فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتا رہا ہے اور 2023 میں غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ بھی عالمی عدالت انصاف میں دائر کر چکا ہے، جس کی اسرائیل نے تردید کی ہے۔
سرحدی اہلکاروں کے مطابق 153 فلسطینی کینیا سے چارٹرڈ فلائٹ کے ذریعے جوہانسبرگ ایئرپورٹ پہنچے۔ ان کے پاس روانگی کی مہر، واپسی کے ٹکٹ یا قیام کے انتظامات کی تفصیل موجود نہیں تھی۔ کسی نے پناہ کی درخواست بھی نہیں دی، جس پر انہیں ابتدائی طور پر داخلہ دینے سے روک دیا گیا۔ یہ واضح نہیں کہ ان کا اصل سفر کہاں سے شروع ہوا تھا۔ غزہ اور مغربی کنارے سے بیرون ملک سفر آسان نہیں ہوتا۔
انسانی ہمدردی کی تنظیم “گفٹ آف دی گیورز” نے مداخلت کرتے ہوئے رہائش اور بنیادی سہولیات کی پیشکش کی، جس کے بعد 130 افراد کو 90 دن کے ویزا پر داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ 23 افراد پہلے ہی دیگر ممالک روانہ ہو چکے تھے۔
تنظیم کے سربراہ عمران سلیمان نے بتایا کہ فلسطینیوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ انہیں کہاں لے جایا جا رہا ہے۔ انہیں کینیا پہنچ کر احساس ہوا کہ ان کی منزل جنوبی افریقہ ہے۔ بعض افراد کے پاس کینیڈا، آسٹریلیا اور ملیشیا کے ویزے بھی موجود تھے، جنہیں بعد میں وہاں جانے کی اجازت دے دی گئی۔
سلیمان کے مطابق باقی افراد کے پاس چند راستے موجود ہیں۔ وہ کسی ایسے ملک جا سکتے ہیں جو انہیں قبول کرے، یا جنوبی افریقہ میں عارضی قیام، 90 روزہ وزٹ ویزا (جسے بڑھایا جا سکتا ہے)، اسٹوڈنٹ ویزا یا پناہ کی درخواست دے سکتے ہیں۔
جنوبی افریقہ کی وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی سفارت خانے نے اطلاع دی ہے کہ اس گروہ کو ایک غیر رجسٹرڈ تنظیم نے دھوکا دے کر پیسے وصول کیے اور بعد میں ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا۔
صدر سیرل رامافوسا نے کہا کہ حکام کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ان افراد کا سفر کہاں سے شروع ہوا اور انہیں جنوبی افریقہ لانے کی وجہ کیا تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمدردی اور تاریخی حمایت کے پیش نظر انہیں قبول کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ انٹیلیجنس ادارے، وزارتِ داخلہ اور وزارتِ خارجہ اس معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔
“ہم مکمل جانچ کر کے یہ دیکھیں گے کہ آگے کیا راستہ نکلتا ہے۔”