غیر قانونی ہجرت: پاکستانی نوجوانوں کی خطرناک مہم اور یورپی سفارت خانوں کی ذمہ داری

تحریر و تحقیق،عدیل خان یوسفزئی ماہر قانون یورپین یونین امیگریشن لالیگل ایڈوائزر ایجوکیشن اینڈ یوتھ ڈیولپمنٹ یورپین یونین
پاکستانی نوجوانوں کی یورپ جانے کی خواہش ایک تلخ حقیقت بن چکی ہے، جہاں ہزاروں نوجوان غیر قانونی راستے اختیار کر کے اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ 2024 میں کتنے پاکستانی جان کی بازی ہار گئے، انہوں نے کتنا پیسہ خرچ کیا، اور وہ کون سے عوامل ہیں جو انہیں ایسی خطرناک راہوں پر مجبور کرتے ہیں؟ اس مضمون میں ہم اس صورتحال کا تجزیہ کریں گے اور اس میں یورپی سفارت خانوں کی مجرمانہ غفلت کو بھی اجاگر کریں گے۔
2024 میں غیر قانونی ہجرت کے دوران ہلاکتیں
2024 کے دوران یورپ جانے کی کوشش میں بڑی تعداد میں پاکستانیوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ حالیہ ایک خوفناک واقعے میں، 2 جنوری 2025 کو موریطانیہ سے روانہ ہونے والی ایک کشتی مراکش کے ساحل پر الٹ گئی۔ اس میں سوار 80 افراد میں سے 50 ہلاک ہو گئے، جن میں 44 پاکستانی شامل تھے۔ زندہ بچ جانے والوں نے انکشاف کیا کہ انسانی اسمگلرز نے پیسوں کے تنازع پر کئی افراد کو کشتی سے سمندر میں پھینک دیا۔
اسی طرح، ایک رپورٹ کے مطابق، 2024 میں صرف اسپین کے ساحل پر پہنچنے کی کوشش میں 10,457 مہاجرین ہلاک یا لاپتہ ہوئے، جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہے۔
کتنا خرچ ہوتا ہے؟
یہ غیر قانونی سفر انتہائی مہنگا پڑتا ہے۔ پاکستانی نوجوان اپنی جمع پونجی، زمینیں بیچ کر، یا قرض لے کر لاکھوں روپے اسمگلرز کو ادا کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، یورپ پہنچنے کے لیے پاکستانی تارکین وطن کو 20 لاکھ سے 50 لاکھ روپے تک ادا کرنے پڑتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے، ان میں سے بہت سے لوگ منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
نوجوان آخر اتنا خطرہ کیوں مول لیتے ہیں؟
یہ سوال بہت اہم ہے کہ پاکستانی نوجوان ایسی خطرناک راہ اختیار کرنے پر کیوں مجبور ہو جاتے ہیں؟
1. معاشی بحران: پاکستان میں مہنگائی، بیروزگاری، اور غربت نے نوجوانوں کے لیے زندگی مشکل بنا دی ہے، جس کی وجہ سے وہ کسی بھی قیمت پر بیرون ملک جانے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
2. سماجی دباؤ: بیرون ملک جانے والے افراد کو کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے، اور والدین بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بیٹے یورپ جا کر خاندان کی مالی مدد کریں۔
3. یورپ کے خواب: پاکستانی نوجوان سمجھتے ہیں کہ یورپ میں انہیں بہتر مواقع اور خوشحال زندگی ملے گی، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
یورپی سفارت خانے: سب سے بڑے مجرم؟
اس تمام صورتحال میں یورپی سفارت خانوں کا کردار قابل مذمت ہے۔ سفارت خانے قانونی ویزا اپلیکیشنز کو غیر ضروری تاخیر اور بے جا مسترد کرنے کے ذریعے نوجوانوں کو غیر قانونی راستے اختیار کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
1. ویزا درخواستوں میں غیر ضروری تاخیر: ایک طالب علم، کاروباری یا ورک ویزا کی درخواست پر 6 سے 8 ماہ تک کا انتظار کروایا جاتا ہے، جس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہوتی۔
2. بلا جواز مستردی: درخواست دہندگان تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود، انہیں بلاوجہ ویزا دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
3. ناانصافی پر مبنی پالیسی: یورپ کا مؤقف ہے کہ مہاجرین کو روکنے کے لیے سخت ویزا پالیسیاں ضروری ہیں، لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ غیر قانونی راستے اختیار کر لیتے ہیں۔
یورپی سفارت خانوں کی نااہلی کی قیمت پاکستانی نوجوان اپنی جانوں سے چکا رہے ہیں
اگر یورپی سفارت خانے شفاف اور منصفانہ طریقے سے ویزا جاری کریں، درخواستوں پر جلد فیصلے کریں اور غیر ضروری تاخیر نہ کریں، تو پاکستانی نوجوان قانونی راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ جب قانونی راستے بند کر دیے جاتے ہیں، تو لوگ اسمگلرز اور خطرناک سفر کا سہارا لیتے ہیں۔
نوجوانوں کے لیے مشورہ: قانونی راستہ اپنائیں، صبر کریں
ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ غیر قانونی راستے اختیار کرنے کے بجائے قانونی طریقے تلاش کریں۔ اگر ویزا درخواست میں تاخیر ہو رہی ہے تو صبر کریں اور قانونی چارہ جوئی اختیار کریں، لیکن اپنی جان خطرے میں نہ ڈالیں۔
ہماری حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ یورپی سفارت خانوں سے ویزا پالیسی میں بہتری کا مطالبہ کرے تاکہ نوجوانوں کو قانونی راستے میسر آئیں اور وہ موت کے کنویں میں نہ گریں۔
تحریر و تحقیق،عدیل خان یوسفزئی ماہر قانون یورپین یونین امیگریشن لالیگل ایڈوائزر ایجوکیشن اینڈ یوتھ ڈیولپمنٹ یورپین یونین
صدر
ای یو پاک ایسوسیشن فار سٹوڈنٹس رائیٹس