اوور سیز پاکستانیز ائیر پورٹ پر کرنسی کیوں ڈیکلئر نہیں کرواتے۔۔۔تحریر : نیر اقبال نجمی

IMG_3748

ہم اوورسیز پاکستانیز جب پاکستان جاتے ہیں تو وہاں پر انکے پاس جو بھی فارن کرنسی ہوتی ہے اُسے پاکستان کے ائیر پورٹ پر پہنچ کر وہاں اوور سیز کے لئے بنا گئے سپیشل ڈیسک پر جائیں اور اُنہیں بتائیں کہ میں اپنے ساتھ اتنی فارن کرنسی لیکر آیا ہوں مجھے اُس کی رسید بنا دیں،کسٹم والا متعلقہ اہلکار آپکو ایک سپیشل پیچھے والے روم میں لے جا کر وہاں آپکے سامنے  وہ ساری کرنسی گنتا ہے اور اُسی وقت آپکے نام پر جتنی بھی رقم ہو ایک رسید پرنٹ کر کے اُس پر کسٹم کی مُہر لگا دیتا ہے، اور وہ فارن کرنسی اماؤنٹ آپکی پاکستان میں لیگل تصور ہو جاتی ہے جس پر آپ کوئی بھی پراپرٹی خرید سکتے ہیں اور کسی بھی مقصد کے لئیے خرچ کر سکتے ہیں اسطرح آپ FBR (ٹیکس ڈیپارٹمنٹ) سے بالکل محفوظ ہو جاتے ہیں!

یہ سارا طریقۂ کار اُن لوگوں کے لئے تو بہت آسان ہوتا ہے جن کا ائیرپورٹ پر کوئی جاننے والا یا تعلق والا سرکاری اہلکار موجود ہو۔حالانکہ جہاز میں پاکستان ائیرپورٹ پر لینڈ کرنے سے پہلے یہ اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ ائیرپورٹ پر آپکے لئے کسٹم کے سپیشل ڈیسک بنائے گئے ہیں آپ وہاں پر اپنی کرنسی ڈیکلئر کروائیں تاکہ آپکی کرنسی لیگل ہو سکے اور یہ سارا طریقۂ کار بہت آسان ہے اور اسکو کروانے میں پانچ منٹ بھی نہیں لگتے لیکن وہاں پر موجود سرکاری اہلکار اور کسٹم آفیسرز جان بوجھ کر اسکو مشکل بنا دیتے ہیں اور اوورسیز پاکستانی اپنی رقم ڈیکلئر کرانے سے ڈرتے ہیں!

اب کچھ لوگ ائیر پورٹ پر پہنچ کر اپنی کرنسی ڈیکلئر کیوں نہیں کرواتے اُسکی کچھ وجوہات ہیں اور لوگ کسٹم اہلکار اور سرکاری کرپٹ عملے سے ڈرتے ہیں ۔

1-تنگ کرنے والا سرکاری اہلکار آپ سے پوچھے گا آپ یہ کرنسی کیوں لائے اور وہاں فارن میں کیا کام کرتے ہیں حالانکہ وہ یہ سوالات پوچھ ہی نہیں سکتا اور ایسے سوالات پوچنے کا مجاز ہوتا ہے ،اُسکا کام صرف کرنسی گِن کے آپ کو رسید بنا کر دینا ہوتا ہے ! انکے اس رویے کی وجہ سے اوورسیز پاکستانی ڈرتے ہیں اور اپنے پاس لانے والی فارن کرنسی ڈیکلئر کرانا مناسب نہیں سمجھتے کہ کہیں کسی اور پنگے میں نہ پڑ جائیں !

2- اگر کوئی اچھا کسٹم آفیسر یا سرکاری اہلکار ہو گا تو وہ آپکو سپیشل بنائے گئے پچھلے آفس میں لیکر جائے گا اور وہاں پر آپکی فارن کرنسی نکلوا کر گنے گا جو کہ پرائیویسی کے لحاظ سے مناسب بات اور اچھا طریقہ کار ہے، لیکن اگر کوئی تنگ کرنے والا اہلکار ہوگا جو عمومًا زیادہ ترایسے ہی ہوتے ہیں وہ کہے گا کہ یہی پر فرنٹ ڈیسک پر ساری کرنسی نکالو جبکہ وہاں پیچھے لائن میں لگے سب لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں جو کہ پرائیویسی کے لحاظ سے نہایت ہی غیرمناسب ہے کہ پبلک آپکو دیکھے کہ آپ اپنے پاس اتنی زیادہ فارن کرنسی رکھتے ہیں اسطرح اوورسیز پاکستانی اس چیز سے بھی ڈرتے ہیں کہ جس نے آپکو ائیرپورٹ کے اندر فارن کرنسی کے ساتھ دیکھا کہیں ائیرپورٹ سے باہر نکلنے پر کوئی آپکا پیچھا نہ کرنا شروع کردے کیونکہ پاکستان میں عمومًا ڈکیتی کی وارداتیں ایسے ہی مخبری پر ہوتی ہیں !

3- کئی دفعہ سرکاری اہلکار یا کسٹم آفیسر آپکی فارن کرنسی کو چیک کرنے کے بعد آپکو ایک سادہ کاغذ پر ہی لکھ کر دے دیتا ہے اور کہتا ہے یہ لو ڈیکلئریشن کی رسید، اگر تو کوئی سادہ لوح اوورسیز پاکستانی ہو گا تو وہ یہ سمجھ کر اُس کو رکھ لے گا اور سمجھے گا کہ اُسکی رقم ڈیکلئر ہو گئی، بالکل غلط وہ ڈیکلئریشن رسید نہیں ہوتی ڈیکلئریشن رسید صرف اور صرف کمپیوٹر کے سسٹم میں آپکے پورے کوائف اور کرنسی معلومات ڈال کر پرنٹ کی جاتی ہے اور اُسکے بعد وہ کسٹم اہلکار اُس پر اپنی مُہر (stamp) لگاتا ہے پھر ہی وہ درست اور valid رسید تصور ہو گی ورنہ سادہ سے کاغذ پر لکھی گئی تحریر کسی کام کی نہیں! اگر کوئی تنگ کرنے والا سرکاری اہلکار یا کسٹم آفیسر ہو گا جب آپ اُس سے کمپیوٹر سے پرنٹ شدہ اور مُہر لگی ہوئی رسید مانگیں گے تو کسٹم آفیسر کہے گا کہ کمپیوٹر خراب ہے یا ہمارا پرنٹر نہیں چل رہا بعد میں لینے آجانا ، ایک انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر انکے پاس خراب پرنٹر اورخراب  کمپیوٹر بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے، اور پھر بچارہ اوورسیز واپس اپنے گھر جا کر دوبارہ ائرپورٹ پر رسید لینے آئے یہ کیسے ممکن ہے، یہ سب کچھ اسلئے کرتے ہیں تاکہ اوورسیز پاکستانی ان سرکاری اہلکاروں کو بھی کرپشن کے طور پر کچھ پیسے دے! اسکی وجہ سے بھی اوورسیز پاکستانی ائرپورٹ پر رقم ڈیکلئر کرتے ہوئے گھبراتے ہیں !

4-بعض دفعہ یہی سرکاری آفیسرز اور اہلکار ائرپورٹ سے باہر لوگوں سے ملے ہوتے ہیں اور باہر مخبری کرواتے ہیں کہ فلاں بندے کے پاس اتنی فارن کرنسی ہے، جسطرح کے پاکستان کے حالات ہیں کوئی نہیں چاہے گا کسی کو پتہ چلے کہ اسکے پاس اتنی فارن کرنسی یا ڈالرز ہیں ، اوور سیز اس وجہ سے بھی روقم ڈیکلئر کروانے سے ڈرتے ہیں!

یہ ساری انفارمیشن اپنے ذاتی مشاہدے کی بنا پر لکھ رہا ہوں تاکہ لوگوں کو پتا چلے، کیونکہ میں نے کئی اوورسیز پاکستانیز کو جنکے ائرپورٹ پر کسی سرکاری اہلکار سے تعلق یا ذاتی واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے ذلیل کیا جاتا ہے، اور جن لوگوں کا ائرپورٹ پر کوئی تعلق ہوتا ہے انکو کسی قسم کا مسئلہ درپیش نہیں ہوتا! حالانکہ یہ ایک اوورسیز پاکستانی کا بنیادی حق ہے کہ جو وہ فارن رمیٹنس اپنی محنت سے کما کر اپنے ملک میں لیکر آئے اسے آسانی سے ائرپورٹ پر ڈیکلئرکروا سکے اور اسکے لئے قانون بھی موجود ہے ، لیکن ہمارے ائرپورٹس پر قانون نافذ کرنے والے پڑھے لکھے آفیسرز لوگ اسکو جان بوجھ کر مشکل بنا دیتے ہیں !

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے