اسپین اور دیگر 16 ممالک کی درخواست پریورپی یونین اسرائیل کے ساتھ ایسوسی ایشن معاہدے پر نظرثانی کرے گی،

برسلز(دوست نیوز)اسپین سمیت 16 سے زائد ممالک کی درخواست پریورپی یونین اسرائیل کے ساتھ اپنے ایسوسی ایشن معاہدے پر نظرثانی کرے گی،
یہ اقدام اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کی حکومت کی جانب سے غزہ کے خلاف جنگ میں بین الاقوامی قانون کی منظم خلاف ورزیوں کے جواب میں اٹھایا جا رہا ہے۔
یہ اعلان یورپی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس نے منگل کے روز برسلز میں یورپی وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد کیا۔
کالاس نے پریس کانفرنس میں کہا: “صورتحال کو بدلنے کے لیے دباؤ ڈالنا ضروری ہے۔” انہوں نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں انسانی امداد کی رسائی پر عائد پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا: “آج کے اجلاس کے بعد یہ واضح ہے کہ رکن ممالک کی ایک بڑی اکثریت ہمارے اسرائیل کے ساتھ ایسوسی ایشن معاہدے کے آرٹیکل 2 پر نظرثانی کی حامی ہے، اس لیے ہم یہ عمل شروع کریں گے۔ یہ اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی امداد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے۔ جانیں بچانا ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔”
ان ممالک میں جو اس اقدام کی حمایت کر رہے ہیں ان میں اسپین، آئرلینڈ، بیلجیئم، لکسمبرگ، سلووینیا اور فرانس شامل ہیں۔
نیدرلینڈز نے، درجن سے زائد ممالک کی حمایت کے ساتھ، اس اقدام کی اپیل کی تھی، جب کہ ایک سال پہلے یہ مطالبہ سب سے پہلے اسپین اور آئرلینڈ نے کیا تھا۔ اسپین کے وزیرِ خارجہ، جوزے مانوئل آلباریس نے برسلز میں کہا: “یورپی یونین کو عمل کرنا چاہیے اور اپنے تمام دستیاب سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے اسرائیل پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ وہ اس جنگ کو ختم کرے اور انسانی امداد کو کسی رکاوٹ کے بغیر داخل ہونے دے۔”
لکسمبرگ کے وزیرِ خارجہ، ژاویر بیٹل نے کہا: “ہمیں اسرائیلیوں کو بتانا ہوگا کہ اب ایسی صورتحال ہے جہاں ہمارے پاس الفاظ نہیں بچے، کوئی جواز نہیں بچا، اور کوئی بہانہ باقی نہیں رہا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کو بتایا جائے کہ ہم خاموش نہیں رہیں گے اور نہ ہی آنکھیں بند رکھیں گے۔”
ایک اعلیٰ سفارتی ذرائع نے اجلاس سے قبل کہاجب یہ تجویز اسپین اور آئرلینڈ نے ایک سال پہلے پیش کی تھی تو اسے بہت کم حمایت حاصل تھی۔ اس وقت کے یورپی خارجہ پالیسی کے سربراہ، جوزپ بوریل نے اس پر نظرثانی کی ضرورت سے اتفاق کیا تھا لیکن کمیشن کی مخالفت کے باعث وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ مگر اب غزہ اور برسلز دونوں میں حالات بدل چکے ہیں۔ چونکہ اب اس تجویز کے پیچھے کئی مزید ممالک ہیں، کمیشن کو یا تو اس پر عمل کرنا ہوگا یا پھر واضح کرنا ہوگا کہ وہ اکثریت کی خواہش کو کیوں نظرانداز کر رہا ہے،