میڈرڈ میں پاکستانی سفیر ڈاکٹر ظہور احمد کا موجودہ پاک بھارت کشیدہ صورتحال  پر اسپانش صحافی لائورا مارتن سنجوائن کے ساتھ تفصیلی انٹرویو

IMG_2435

ترجمہ وتحریر۔۔ڈاکٹرقمرفاروق  

ظہور احمد، اسپین میں پاکستان کے سفیر

ہم نے سفیر سے کشمیر کے تنازعے، بھارت کے ساتھ تعلقات، افغانستان، چین، روس، ملکی معاشی بحران، دہشت گردی، اور ان چیلنجز پر بات کی جن کا پاکستان کو اس وقت سامنا ہے۔

ظہور احمد سے ملاقات میڈرڈ میں پاکستانی سفارت خانے میں ہوئی (وہ مئی 2024 سے وہاں تعینات ہیں)۔ روایتی چائے کے ساتھ گفتگو کا آغاز ہوا۔ انہوں نے کسی بھی سوال سے گریز نہیں کیا، حالانکہ دورانِ انٹرویو ان کے ملک کی حکومت کی کئی بار کال آئی، جس کی وجہ سے گفتگو میں وقفہ بھی آیا۔ 30 سال سے زائد سفارتی تجربے کے حامل ظہور احمد نے Diario AS کو خوشی سے انٹرویو دیا، خصوصاً اسکول اسپورٹس میں نئی شراکت داری پر خوشی کا اظہار کیا، اور پاکستان میں جاری حالات و چیلنجز پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔اسپانش صحافی لائورا مارتن سنجوائن

سوال: پاکستان اسپین اور یورپی یونین کے ساتھ موجودہ تعلقات کو کیسے دیکھتا ہے؟

جواب: تجارتی لحاظ سے اسپین پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ یورپ کی چوتھی بڑی معیشت ہے اور یورپ میں ہمارا دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ یورپ مجموعی طور پر پاکستان کا پہلا یا دوسرا سب سے بڑا تجارتی شریک ہے۔ ہم اسپین کو تین براعظموں — افریقہ، لاطینی امریکا، اور یورپ — کے لیے ایک کھڑکی سمجھتے ہیں۔ اسپین اصولوں پر کھڑا ملک ہے اور کئی پہلوؤں میں پاکستان جیسے ہی اقدار رکھتا ہے۔

مثلاً، موسمیاتی تبدیلی، انسانی حقوق، ترقیاتی مسائل، ترقیاتی مالیات، اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے جیسے موضوعات پر ہم ایک جیسے خیالات رکھتے ہیں۔ ہم اسپین کو استحکام کے لیے بھی ایک اہم ملک سمجھتے ہیں۔ اسپین ٹیکنالوجی، قابلِ تجدید توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور زراعت کے شعبے میں بہت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ان شعبوں میں تعاون بہت اہم ہے۔

س: ہسپانوی دفاعی صنعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے، کیا پاکستان کو اس شعبے میں بھی فائدہ ہو سکتا ہے؟

ج: دفاعی ٹیکنالوجی ان دنوں ممالک کی خودمختاری کے لیے بہت اہم ہو چکی ہے، اس لیے ہم اس شعبے میں بھی کام کر رہے ہیں۔ البتہ فی الحال کسی ہسپانوی کمپنی کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ کچھ معاہدے ہماری فوج کے ساتھ ہوئے ہیں، لیکن وہ حکومتی سطح پر نہیں ہیں۔

س: پاکستان نے حالیہ برسوں میں روس کے ساتھ گیس معاہدے اور فوجی مشقوں جیسے روابط مضبوط کیے ہیں۔ کیا اس سے مغربی دنیا کے ساتھ روایتی اتحاد پر اثر پڑے گا؟

ج: ہم ایک درمیانے درجے کا ملک ہیں اور سب ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، چاہے وہ علاقائی ہوں یا بین الاقوامی۔ تاریخ میں ہم سرد جنگ کے دوران مغرب کے ساتھ تھے، اور امریکا کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف اتحاد میں بھی شامل رہے۔ لہٰذا ہمارا مغرب کے ساتھ ایک مضبوط تاریخی رشتہ ہے۔

روس کے ساتھ ماضی میں ہمارے زیادہ تعلقات نہیں تھے، لیکن اب ہم نے محسوس کیا کہ ہمیں سب کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔ خاص طور پر افغانستان کے معاملے میں، روس علاقائی فریق ہے، اس لیے بات چیت ضروری ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ تمام تعلقات باہمی احترام اور خودمختاری کے اصولوں پر مبنی ہونے چاہئیں۔

س: کشمیر کا تنازعہ اب بھی ایک حساس مسئلہ ہے۔ پاکستان کشیدگی کم کرنے اور بھارت کے ساتھ مکالمے کے لیے کیا اقدامات تجویز کرتا ہے؟

ج: کشمیر گزشتہ 75 سالوں سے ایک تنازعہ ہے۔ یہ 1948 سے اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق جب تک مسئلہ حل نہیں ہوتا، وہ ایجنڈے پر رہتا ہے۔ صرف اس لیے کہ کوئی بات نہیں کرنا چاہتا، مسئلہ ختم نہیں ہوتا۔

ہم نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ پُرامن تعلقات کی بات کی ہے، اور سفارت کاری اور مکالمے کے ذریعے حل کی اپیل کی ہے۔ لیکن کشمیر جیسے مسائل، جو انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون سے جڑے ہیں، ان پر بات ضروری ہے۔

حال ہی میں بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا، جس کی بھارت نے تحقیقات کیے بغیر فوراً پاکستان پر الزام لگا دیا، صرف اندرونی سیاسی فائدے کے لیے۔ ہم نے بین الاقوامی نگرانی میں مشترکہ تحقیقاتی کمیشن کی پیشکش کی، کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ یہ کارروائی پاکستان سے منسلک نہیں تھی۔

بھارت نے الزامات لگائے، اور اس کے بعد میزائل حملے بھی ہوئے، تو ہمیں اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنا پڑے۔ ہم نے یہ عزت و وقار کے ساتھ کیا۔ بعد میں امریکا سمیت کئی عالمی طاقتوں نے کشیدگی کم کرنے اور مکالمے پر زور دیا، جس میں یورپی یونین اور اسپین بھی شامل تھے۔ وزیر خارجہ الباريس اور وزیراعظم پیدرو سانچیز نے بھی جوہری طاقتوں کے درمیان سفارت کاری کے ذریعے بات چیت کی حمایت کی۔

پاکستان ہر قسم کے دہشت گرد حملے کی مذمت کرتا ہے۔

س: پاکستان جوہری طاقت ہے، اور یہ دنیا کو خوفزدہ کرتا ہے۔

ج: 1974 میں بھارت نے پہلی جوہری تجربہ کیا، لیکن ہم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 1998 میں بھارت نے دوبارہ جوہری دھماکے کیے اور ہمیں مجبوراً ان کا جواب دینا پڑا۔ بھارت نے کہا کہ وہ چین سے دفاع کے لیے یہ تجربے کر رہا ہے، لیکن ساتھ ہی پاکستان کو بھی دباؤ میں لانے کی بات کی۔ لہٰذا ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہ رہا۔

ہماری جوہری صلاحیت انتخاب نہیں، دفاع کی مجبوری تھی۔ ہمارے پاس ان کے استعمال کا کوئی ارادہ نہیں، لیکن ان کی موجودگی نے پاکستان کی خودمختاری کی حفاظت کی۔ تصور کریں کہ اگر حالیہ بحران میں ہمارے پاس یہ صلاحیت نہ ہوتی، تو ہمارے لیے خطرہ بہت بڑا ہوتا۔

ہم ایسے دنیا دیکھنا چاہتے ہیں جہاں کوئی جوہری ہتھیار نہ ہو، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک بڑا ملک ان ہتھیاروں کے ساتھ ہو اور دوسروں کو دھمکائے، تو چھوٹے ممالک کو بھی اپنی حفاظت کے لیے انہیں رکھنا پڑتا ہے۔ پاکستان جوہری عدم پھیلاؤ کی بین الاقوامی کوششوں کا حصہ ہے، لیکن ہمارے لیے یہ ہتھیار دفاع کے لیے مجبوری تھے، انتخاب نہیں۔

س: تاریخ میں کہا جاتا ہے کہ ایک موقع ایسا آیا جب امریکا نے روس پر ‘ریڈ بٹن’ دبانے کے قریب تھا۔ کیا پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی کبھی ایسا لمحہ آیا؟

ج: میں عسکری حکمتِ عملی کا ماہر نہیں، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ دونوں ممالک نے کبھی سنجیدگی سے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا ارادہ کیا ہو۔ خطرناک بات یہ ہے کہ اگر میزائل، فضائیہ یا سرحدی افواج کی کارروائیوں کے ذریعے کشیدگی اس حد تک بڑھے کہ جنگ چھڑ جائے۔

ہم خوش ہیں کہ خطرہ کسی حد تک کم ہوا ہے، لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ موجودہ صورتحال صرف ایک “وقفہ” ہے، “جنگ بندی” نہیں۔ یہ مسئلہ ختم نہیں ہوا۔ یہ جنگ نہ بھارت کے عوام کے لیے اچھی ہے اور نہ پاکستان کے عوام کے لیے۔

سوال: افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کس قدر مشکل ہیں؟

جواب: ہمیں ان کے ساتھ بات چیت رکھنی پڑتی ہے کیونکہ وہ ہمارے ہمسایہ ہیں، لیکن ہم نے انہیں باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ بطور حکومت، ہمارا ماننا ہے کہ یہ فیصلہ بین الاقوامی برادری کو اجتماعی طور پر کرنا چاہیے۔

افغانستان میں ایسی کئی خاندانیں ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی وجہ سے بٹ چکی ہیں، حالانکہ ہم طالبان کی نظریاتی سوچ سے متفق نہیں ہیں۔ ہم یہ نہیں سمجھتے کہ اسلام کا مطلب وہ نظریات ہیں جو طالبان خواتین اور تعلیم کے بارے میں رکھتے ہیں۔ پاکستان میں کبھی بھی ایسے قوانین نہیں ہو سکتے جو خواتین کو معیاری تعلیم تک رسائی سے روکتے ہوں۔ ہم یہ بھی نہیں مانتے کہ تمام مذاہب کو برابری کے ساتھ عمل میں نہ لایا جا سکے۔

لیکن ہمارا ان سے بات چیت جاری ہے، کیونکہ وہ ایک بند ملک ہیں، اس لیے ہم ان کی بیرونی تجارت کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمارا افغانستان کے ساتھ فری ٹریڈ (بلا معاوضہ لین دین) کا معاہدہ ہے، اور میرے خیال میں اس وقت افغانستان کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں بہت سے دہشت گرد گروہ موجود ہیں جو پاکستان پر حملے کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ ختم ہو۔

سوال: حال ہی میں پاکستانی صدر نے چین کا دورہ کیا۔ کیا آپ تفصیل سے بتا سکتے ہیں کہ کون سے معاہدے طے پائے اور ان کا پاک-چین اکنامک کوریڈور (CPEC) پر کیا اثر پڑے گا؟

جواب: ہمارے تعلقات باہمی احترام اور اعتماد پر مبنی ہیں، اور ایک اہم بات یہ ہے کہ چین پاکستان سے کہیں بڑا ملک اور معیشت ہے، پھر بھی اس نے ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری کا احترام کیا ہے۔ ہم بھارت سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ چاہے جتنا بھی بڑا ملک ہو، باہمی احترام پر مبنی رویہ رکھے۔

چین نے پاکستان کی ترقی میں مدد کی ہے۔ چین-پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) ہمارے ملک کے پسماندہ علاقوں اور چین کے نسبتاً کم ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی کے لیے بہت اہم ہے۔ انفراسٹرکچر کی ترقی اور توانائی کی سلامتی کے لحاظ سے یہ معاہدے نہایت کلیدی ہیں۔

یہ ایک ایسا تعلق ہے جو اعتماد اور احترام پر مبنی ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ہماری خطے کے دوسرے ممالک کے لیے بھی سیکھنے کی بات ہے — کہ اگر آپ ایک بڑی معیشت بھی ہیں، تب بھی آپ کو اپنے چھوٹے ہمسایوں کا احترام کرنا چاہیے، اور ہمیں یہی چاہیے۔

سوال: چین پاکستان کا سب سے بڑا اتحادی ہے، لیکن اس کے بھارت سے بھی قریبی تعلقات ہیں۔ اسلام آباد اس مثلثی تعلقات کو کیسے سنبھالتا ہے؟

جواب: ہمیں دوسرے ممالک کے تعلقات پر تبصرہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ہمارا چین کے ساتھ بہت اچھا تعلق ہے اور ہم ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ ہم بھارت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات چاہتے ہیں، لیکن یہ تعلقات سفارت کاری اور باہمی احترام پر مبنی ہونے چاہییں، اور یہ تعلق ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ایک بڑا ملک چھوٹے ملک پر الزام لگاتا رہے۔

سوال: پاکستان کو سنگین معاشی چیلنجز درپیش ہیں (مہنگائی، قرضہ وغیرہ)۔ آپ چین، سعودی عرب یا آئی ایم ایف جیسے شراکت داروں سے کیا کردار چاہتے ہیں؟

جواب: سب سے بڑا چیلنج ترقی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ لوگ غربت سے باہر آئیں اور ترقی کریں۔ دوسرا بڑا چیلنج اقتصادی استحکام ہے، جیسے مالیاتی توازن، قرض کی شرح وغیرہ — یہ سب توازن میں ہونے چاہییں تاکہ مستقبل میں مستحکم ترقی ممکن ہو سکے۔

ہم نے اس وقت آئی ایم ایف سے قرض لیا ہے تاکہ کچھ ترقیاتی اہداف حاصل کیے جا سکیں، لیکن ہمارا حتمی مقصد ایک خودمختار ملک بننا ہے۔ ہم دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے بڑے شراکت دار امریکہ، یورپ اور چین ہیں، لیکن ہم سب کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ اسپین کے سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان میں بہت مواقع موجود ہیں۔ تاریخی طور پر اسپین نے ایشیا پر اتنی توجہ نہیں دی، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اسپین کے لیے ایک خاص دلچسپی کا ملک ہو سکتا ہے کیونکہ ہمارے پاس ہنر مند افرادی قوت ہے، مغربی تعلیم و ثقافت سے آشنائی ہے، اور ہمارے معاشی اشاریے ایک روشن مستقبل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

ٹیکسٹائل کا شعبہ بہت اہم ہے — پاکستان میں ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو ہسپانوی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتی ہیں، اور ہماری ٹیکسٹائل عالمی معیار کی ہے۔

دوسرا شعبہ ایگروٹیکنالوجی ہے، جہاں ہم بہت تعاون کر سکتے ہیں۔ ہم ایک زرعی ملک ہیں، اسپین بھی یورپ کا بڑا زرعی ملک ہے۔

ہمارے پاس پانی کی بچت، بیجوں کے انتخاب جیسی ٹیکنالوجی موجود ہے، جس سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

قابلِ تجدید توانائی بھی ایک اہم شعبہ ہے۔

اور معلوماتی ٹیکنالوجی، جو دفاعی شعبے سے بھی منسلک ہے — پاکستانی نوجوانوں نے اس میدان میں زبردست صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

سوال: پاکستان یوکرین یا غزہ جیسے تنازعات میں غیر جانب دار موقف رکھتا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ عدم صف بندی کی حکمت عملی آپ کے قومی مفاد میں ہے؟

جواب: جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ یہی پالیسی ہم نے یوکرین کے معاملے میں اپنائی ہے، اور یہی پالیسی غزہ کے حوالے سے ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں، جن میں دو ریاستی حل اور بستیوں سے متعلق نکات شامل ہیں، اس الم ناک صورتحال کے حل کے لیے ایک رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ غزہ میں انسانی بحران کو فوری طور پر سفارتکاری اور مکالمے کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ ہمیں خوشی ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں، اور ہم امید کرتے ہیں کہ غزہ میں بھی ایسا ہی ہو۔

جو بھی یہ کہتا ہے کہ جنگ مسائل کا حل ہے، وہ دنیا کا دوست نہیں ہے۔

سوال: آخر میں، پاکستان سیاحت کے حوالے سے کیا پیش کرتا ہے؟

جواب: پاکستان کے بارے میں کئی اہم باتیں ہیں جنہیں اجاگر کرنا ضروری ہے۔ اسپین سے زیادہ سیاح نہیں آتے، لیکن جو آتے ہیں، ان کا تجربہ بہت مثبت ہوتا ہے اور وہ واپس آنا چاہتے ہیں۔

ہمارے ہاں قدرتی خوبصورتی بے مثال ہے؛ دنیا کی بلند ترین پہاڑیاں ہمارے پاس ہیں؛ ہماری تاریخ بہت قدیم ہے — ہم دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک “وادی سندھ” کے وارث ہیں؛ پہلا بدھ مت ریاست اور یونیورسٹی ہمارے یہاں تھیں؛

سکھ مذہب کی جڑیں یہاں ہیں اور ان کے اہم مقدس مقامات پاکستان میں موجود ہیں؛ ہندو مت کے بھی اہم مقامات یہاں ہیں؛

عیسائی ورثہ بھی ہے، ہمارے نوآبادیاتی ماضی کی وجہ سے؛

اور ظاہر ہے ہم ایک مسلم ملک ہیں، جن پر وسط ایشیائی، فارسی اور عربی اثرات ہیں۔

جب پاکستانی کسی غیر ملکی کو دیکھتے ہیں، تو اسے ذاتی مہمان سمجھتے ہیں — مہمان نوازی ہمارے کلچر کا بہت اہم حصہ ہے۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے