” اک نام ، کئی چراغ ”  کالم نگار : شنیلہ جبین زاہدی بارسلونا اسپین

91b

کچھ لوگ ہوتے ہیں جو صرف اپنی منزل نہیں پاتے بلکہ

وہ راستے ہموار کرتے ہیں۔

خود جلتے ہیں مگر دوسروں کے لیے روشنی چھوڑ جاتے ہیں اور جب وہ کامیاب ہوتے ہیں تو صرف خود نہیں چمکتے بلکہ پوری قوم کو روشن کر دیتے ہیں۔

ڈاکٹر صباء انور ایسی ہی ایک بیٹی کا نام ہے۔

جس نے یہ ثابت کر دیا کہ محنت، نیت، اور تربیت مل جائیں تو دنیا کے کسی بھی کونے میں، کوئی بھی خواب ممکن ہے

پاکستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں چھنی محرم سے

2010 میں بارسلونا کی سرزمین پر قدم رکھنے والی

یہ بچی جب آٹھویں جماعت میں داخل ہوئی

تو اُس کے پاس نہ زبان تھی، نہ ماحول کی سمجھ،

نہ تعارف، نہ تعلق۔

بس ایک شفاف سا خواب،

اور اُس خواب کے پیچھے ایک باپ کی انتھک محنت ، لگن اور خاموش دعائیں تھیں ۔ 

اس باپ نے بیٹی کی آنکھوں میں پنپتے خواب کو مھسوس کیا اور اس کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے اپنی نیند بیٹی کی تعلیم پر قربان کر دی ۔

محمد انور صاحب جیسے باپ آج کے دور میں

اکثریت کے لیے ایک مثال اور اقلیت کے لیے ایک تلخ سوال بنے ہوئے ہیں۔  کہ کیا ہم اپنی بیٹیوں کو صرف حفاظت دیتے ہیں… یا اعتماد بھی؟

صباء کے والد نے صرف بیٹی کی تعلیم پر توجہ نہیں دی، بلکہ اُس کے اندر اعتماد، جَرات، اور پہچان کا بیج بویا۔

یہی تربیت اُس کے ہر قدم میں روشنی بن کر ساتھ رہی۔

یہ سفر کسی نصابی ڈگری تک محدود نہیں تھا یہ ایک اندرونی جدوجہد تھی۔ نئے کلچر، نئی زبان، نئی سوچ، اور ایک مکمل اجنبی ماحول میں خود کو ثابت کرنے کی جنگ ۔

صباء نے چیخ کر کچھ نہیں کہا ، بس خاموشی سے، استقامت سے، ایک ایک قدم آگے بڑھاتی گئی ۔ اس راستے میں ہر روز نئے چہرے ، نئے لوگ اور نئی فکروں کا باب کھلتا چلا گیا ۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والی سینکڑوں خواتین نے اس کا ساتھ دیا ۔ کئی قابل ذکر ادارے اس سفر میں صباء کے لئے راہیں ہموار کرتے گئے ۔ جن میں پروفیسر عروسہ راجہ جیسی قابل فخر بیٹی نے بھی ایک دوست و معاون کا کردار با خوش و اسلوبی نبھایا ۔

بالآخر 2025 کا سورج اس بیٹی کی کامیابی کی نوید لے کے طلوع ہوا۔ 

مجھے اُس روز فخر کا ایک نایاب لمحہ نصیب ہوا،

جب میں ڈاکٹر صباء کے فائنل پروگرام میں مدعو تھی۔

میں نے ایک لکھاری کے سکوت میں وہ سب کچھ محسوس کیا۔ 

جو الفاظ میں ڈھلنے سے پہلے دل میں آباد ہوتا ہے۔

جب ڈائریکٹر نے اُس کی کامیابی کی مبارکباد دی۔

تو میں نے باپ کی آنکھوں میں وہ چمک دیکھی

جو پوری کائنات کو روشن کر سکتی ہے۔

بھائیوں کے چہروں پہ وہ تمکنت، ماں کی پلکوں پہ وہ نمی، اور بیٹی کے لبوں پہ وہ عاجز سی مسکراہٹ دیکھی ، جو نئی صبح کا اعلان کر رہی تھی ۔ 

یہ سب مناظر میرے دل کی دیواروں پہ ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئے۔

؎ وہ لمحے امانت ہو گئے میری روح کے

جن میں بیٹی، باپ کے ماتھے کا فخر بنی” 

یہ صرف ایک کامیابی نہیں تھی ۔

یہ پیغام تھا اُن تمام بیٹیوں کے لیے

جو اجنبی دیس میں اجنبی خواب دیکھتی ہیں۔

یہ صباء انور کا کارنامہ نہیں،

ایک قوم کی بیٹی کا اثبات تھا۔

ایک نئی امید،

ایک نئی راہ،

ایک نئی صبح۔

اور ہاں!

یہ پیغام بھی کہ اگر باپ بیٹی کو محبت دے،

بھائی اس کی حفاظت کرے،

تو وہ  آسمان سے بھی بلند اُڑان بھرتی ہے۔

"بیٹی کو پر دو، پرواز وہ خود سیکھ لیتی ہے

باندھ دو عزت سے، تو دنیا جیت لیتی ہے”

یہ کامیابی صرف پاکستانی کمیونٹی کے لیے نہیں،

بلکہ اسپانوی معاشرے کے لیے بھی اک خوبصورت جواب تھی ۔

کہ اسلام اور پاکستان کا مرد بیٹی کو صرف مان ہی نہیں دیتا، بلکہ عزت کا تاج بھی اُس کے سر پر سجاتا ہے۔

آخر میں بس یہی کہوں گی

"کاش ہر صباء کو انور جیسا باپ،

اور ایسے بھائی ملیں جو اُس کی خاموش اُڑان کو محسوس کر سکیں۔

تب دنیا میں ہر بیٹی ایک نئی تاریخ لکھے گی۔”

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے