اگست میں گران کیناریا پہنچنے والی سب سے بڑی کشتی میں جادو ٹونا، تشدد اور 50 ہلاکتیںہولناک پہلو بے نقاب

لاز پالماس دے گران کیناریا –( 18 ستمبر 2025)گزشتہ اگست میں گران کیناریا پہنچنے والی سب سے بڑی کشتی نے بحرِ اوقیانوس کی مہلک ترین راستے کا سب سے ہولناک پہلو بے نقاب کر دیا۔ بیس میٹر لمبی یہ کایاکو، جس میں 248 افراد سوار تھے، جزیرے کے جنوبی ساحل پر بے یار و مددگار ملی۔ لیکن یہ محض ایک اور ریسکیو آپریشن نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی المناک کہانی تھی جس میں دہشت، تشدد اور درندگی نے درجنوں زندگیاں نگل لیں۔ پولیس کے مطابق کم از کم 50 افراد کو کشتی سے زندہ سمندر میں پھینک دیا گیا۔
تحقیقات اور عینی شاہدین کے بیانات کے مطابق، گیارہ دن کی اس ہولناک سفر کے دوران نہ صرف بھوک، پیاس اور بیماری نے لوگوں کی جان لی بلکہ کایاکو پر قابض چند افراد نے ظلم اور خوف کی حکمرانی قائم کر رکھی تھی۔ کمزور یا بغاوت کرنے والوں کو بے دردی سے پیٹا جاتا۔ جب انجن خراب ہوا یا کھانے پینے کی اشیا ختم ہوئیں تو کچھ مسافروں کو ’’جادوگر‘‘ قرار دے کر سمندر کی نذر کر دیا گیا۔
بچ جانے والے افراد نے انکشاف کیا کہ روانگی کے وقت کشتی میں تقریباً 300 مسافر تھے، اس حساب سے لاپتا اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد پچاس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ کئی لوگ بھوک اور بیماری کے باعث بھی راستے میں دم توڑ گئے۔ ایک مسافر تو اسپتال پہنچتے ہی دم توڑ گیا۔
پانچ ستمبر کو سان بارتولومے دے تیراخانا کی عدالت نے کشتی کے 19 سواروں کو جیل بھیج دیا جنہیں ہلاکتوں اور تشدد کے ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ ان پر قتل، زخمی کرنے، اذیت دینے اور غیر قانونی ہجرت کو فروغ دینے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ پولیس کی اسپیشل یونٹ آپریشن ٹریٹون کے تحت اس سانحے کی مکمل تحقیقات جاری ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق افریقہ سے کینری جزیروں تک کا سمندری راستہ دنیا کا سب سے مہلک ہجرتی راستہ ہے۔ دو ہزار پانچ سو کلومیٹر طویل اس سفر میں نہ صرف سمندر کی سختیاں بلکہ ساتھی مسافروں کی درندگی بھی جان لیوا ثابت ہو رہی ہے۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ 28 دسمبر کو ایک اور کشتی لا ریستنگا (ایل یئیرو) پہنچی جس میں 224 مسافر سوار تھے۔ گیارہ دن کے سفر میں آٹھ افراد، جن میں 14 ماہ کا ایک بچہ بھی شامل تھا، جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تفتیش میں انکشاف ہوا کہ کئی افراد کو چھریوں، مچھیٹوں اور کوڑوں سے زخمی کیا گیا۔ یہ افسوسناک حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ بحرِ اوقیانوس کے مہاجرین نہ صرف بھوک اور پیاس سے لڑتے ہیں بلکہ اپنے ہی ساتھیوں کے تشدد کا بھی شکار ہوتے ہیں۔