31 سالہ محمد ابو دخہ کا غزہ سے بھاگ کر یورپ تک پہنچنے کا سفر آسان نہ تھا۔ اس میں انہیں ایک برس سے زائد کا وقت لگا، اور کئی رکاوٹوں کے باوجود اپنی ذہانت، کئی ہزار ڈالر اور جیٹ سکی کے ذریعے وہ اپنی منزل تک پہنچے۔
انہوں نے اپنی پوری کہانی ویڈیوز، تصویروں اور آڈیو ریکارڈنگز کے ذریعے محفوظ کی، اور اسے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ شیئر کیا۔ روئٹرز نے نہ صرف ابو دخہ کا انٹرویو کیا بلکہ اٹلی پہنچنے پر اُن کے ساتھ سفر کرنے والے ساتھیوں سے بھی بات کی، اور غزہ میں موجود اُن کے رشتہ داروں سے بھی رابطہ کیا۔
اسرائیل اور حماس کی تقریباً دو برس کی جنگ کی تباہ کاریوں، جس میں غزہ کے حکام صحت کے مطابق 57 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، سے بھاگتے ہوئے ابو دخہ نے اپریل 2024 میں پانچ ہزار ڈالر دے کر رفح بارڈر پار کیا اور مصر میں داخل ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ ابتدا میں وہ اسائلم کی امید میں چین گئے لیکن ناکامی کے بعد وہ ملائیشیا اور انڈونیشیا سے ہوتے ہوئے واپس مصر آ گئے۔
محمد ابو دخہ نے چین میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین ادارے کے نمائندے کے ساتھ اگست اور ستمبر 2024 کی اپنی ای میلز بھی دکھائیں۔
اس کے بعد وہ لیبیا چلے گئے، جہاں انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی متعدد رپورٹس کے مطابق ہزاروں تارکینِ وطن کو یورپ جانے کی کوشش کے دوران انسانی سمگلرز اور ملیشیائیں ظلم و استحصال کا نشانہ بناتی ہیں۔
اٹلی کی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک اس برس 47 ہزار سے زائد تارکینِ وطن کشتیوں کے ذریعے اٹلی پہنچ چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افراد لیبیا اور تیونس سے آئے ہیں۔ لیکن ابو دخہ کا سفر بالکل غیرمعمولی تھا۔
سمگلروں کے ساتھ 10 بار کوشش کرنے کے بعد بھی ناکامی ہاتھ آئی، تو انہوں نے ایک مختلف راستہ چُنا۔ ابو دخہ نے ایک پرانی یاماہا جیٹ سکی تقریباً پانچ ڈالر میں لیبیا کی ایک آن لائن مارکیٹ سے خریدی، اور مزید 1500 ڈالر کا ساز و سامان لیا، جس میں جی پی ایس، سیٹلائٹ فون اور لائف جیکٹس شامل تھیں۔
ابو دخہ کے ساتھ دو اور فلسطینی نوجوان بھی تھے، یہ 27 سالہ ضیا اور 23 سالہ باسم تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ تقریباً 12 گھنٹے تک جیٹ سکی چلاتے رہے، اس دوران ایک تیونسی گارڈز کی ایک کشتی نے ان کا پیچھا بھی کیا، لیکن وہ بچ نکلے۔ اُن کے پیچھے ایک چھوٹی ربڑ کی کشتی بندھی ہوئی تھی جس میں اضافی سامان رکھا گیا تھا۔
تینوں نے یہ حساب لگانے کے لیے چیٹ جی پی ٹی کی مدد لی کہ انہیں کتنے ایندھن کی ضرورت ہو گی۔ مگر پھر بھی وہ لامپیڈوسا کے ساحل سے تقریباً 20 کلومیٹر پہلے ایندھن سے محروم ہو گئے۔ انہوں نے فوراً مدد کے لیے کال کی، جس پر ریسکیو ٹیم پہنچی اور 18 اگست کو انہیں اٹلی کے جزیرے لامپیڈوسا پر لایا گیا۔
یورپی یونین کی بارڈر ایجنسی فرنٹیکس کے ترجمان نے بتایا کہ اُنہیں رومانیہ کی ایک پیٹرولنگ کشتی نے اٹھایا، جو فرنٹیکس مشن کا حصہ تھی۔ ترجمان کے مطابق ’یہ ایک غیرمعمولی واقعہ تھا۔‘
باسم نے کہا کہ ’یہ سفر واقعی بہت مشکل تھا، لیکن ہم مہم جو تھے۔ ہمیں یقین تھا کہ ہم پہنچیں گے، اور خدا نے ہمیں ہمت دی۔‘
اٹلی میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین ادارے کے ترجمان فِلیپو اونگارو نے بھی تصدیق کی کہ حکام نے تینوں کی آمد کو رجسٹر کیا، وہ لیبیا کی بندرگاہ الخُمس سے جیٹ سکی پر روانہ ہوئے تھے، اور لامپیڈوسا کے قریب ریسکیو کیے گئے۔
الخُمس سے لامپیڈوسا کا فاصلہ تقریباً 350 کلومیٹر بنتا ہے۔
ابو دخہ نے روئٹرز سے اُس وقت رابطہ کیا جب وہ لامپیڈوسا کے مہاجر مرکز میں مقیم تھے۔ اُنہیں عملے کے ایک رکن نے بتایا تھا کہ ان کے جیٹ سکی پر آنے کی خبر مقامی میڈیا میں شائع ہو چکی ہے۔
لامپیڈوسا سے جرمنی تک
لامپیڈوسا سے یہ سفر ختم نہیں ہوا بلکہ ایک نئی داستان کا آغاز تھا۔ تینوں نوجوانوں کو وہاں سے فیری کے ذریعے اٹلی کے مرکزی جزیرے سسلی لایا گیا، پھر شمال مغربی شہر جینوا منتقل کیا گیا، لیکن وہ اپنی منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی بس سے فرار ہو گئے۔
اٹلی کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ اُن کے پاس ان تینوں افراد کی نقل و حرکت سے متعلق کوئی مخصوص معلومات نہیں ہیں۔
چند گھنٹے جھاڑیوں میں چھپ کر گزارنے کے بعد ابو دخہ نے جینوا سے برسلز تک ہوائی جہاز کا سفر کیا۔
برسلز سے وہ پہلے ٹرین کے ذریعے جرمنی کے شہر کولون گئے، پھر وہاں سے لوئر سیکسنی کے شہر اوسنا بروک، جہاں ایک رشتہ دار اُنہیں گاڑی میں بٹھا کر ایک قریبی چھوٹا سے قصبے برامشے لے گیا۔
ابو دخہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے پناہ کی درخواست دے دی ہے، اور اب عدالت کی طرف سے اس کی درخواست پر سماعت کا انتظار ہے۔ لیکن اس کی تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی۔ فی الحال اُن کے پاس نہ کوئی نوکری ہے اور نہ ہی ان کی کوئی آمدنی ہے، اور وہ مقامی پناہ گزین مرکز میں مقیم ہیں۔
جرمنی کے وفاقی دفتر برائے ہجرت و پناہ نے ذاتی معلومات کے تحفظ کی وجہ سے ان کے کیس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔
دوسری جانب محمد ابو دخہ کے اہلِ خانہ اب بھی جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں ایک خیمہ بستی میں رہائش پذیر ہیں، کیونکہ ان کا گھر تباہ ہو چکا ہے۔
اُن کے والد انتصار خضر ابو دخہ نے غزہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اُس (ابو دخہ) کی ایک انٹرنیٹ کی دکان تھی، اور اللہ کے فضل سے اُس کا کام مالی لحاظ سے اچھا چل رہا تھا۔ اُس نے اپنی زندگی خود بنائی تھی، اور پھر سب کچھ ختم ہو گیا۔‘
ابو دخہ کو امید ہے کہ وہ جرمنی میں رہنے کا قانونی حق حاصل کریں گے اور پھر اپنی بیوی اور دو بچوں، جن کی عمریں چار اور چھ برس ہیں، کو بھی اپنے پاس بلا سکیں گے۔
اُنہوں نے بتایا کہ اُن کا ایک بچہ ایک اعصابی بیماری میں مبتلا ہے، جسے باقاعدہ علاج کی ضرورت ہے۔
’اسی لیے میں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر جیٹ سکی پر سفر کیا۔ اپنے خاندان کے بغیر زندگی کا کوئی مطلب نہیں۔‘