فلسطینی پرچموں کا “بڑا کاروبار”ایک سال پہلے اسرائیلی زیادہ بکتے تھے”

Screenshot
میڈرڈ (دوست نیوز)فلسطینی پرچموں کی فروخت اسپین سمیت دنیا بھر میں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ بڑے کاریگروں سے لے کر آن لائن پلیٹ فارمز تک، ہر جگہ طلب میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

میڈرڈ کے قریب مشہور ادارہ فیلتروس اویروس، جو 1863 سے پرچم تیار کر رہا ہے، اب تک کا منفرد آرڈر تیار کر رہا ہے: ریشمی فلسطینی اور جمہوریہ اسپین کے دو پرچم، ہر ایک ڈیڑھ میٹر لمبا، جن پر کل لاگت 550 یورو سے زائد آئے گی۔ کاریگر پتریسیا لوزانو کہتی ہیں کہ “یہ فن ہے، سیاست نہیں”۔

فلسطینی پرچم کے رنگ (سیاہ، سفید، سبز اور سرخ) مشرقِ وسطیٰ کے پین عربی ورثے کی علامت ہیں۔ غزہ کی جنگ اور بھاری جانی نقصان کے بعد دنیا بھر میں ان کی فروخت ہزاروں کی تعداد میں بڑھ گئی ہے۔ خاص طور پر 2023 کے حملوں اور بعد ازاں اسرائیلی کارروائیوں کے بعد، جن میں دسیوں ہزار ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں، فلسطین کے حق میں ہمدردی میں اضافہ ہوا ہے۔

اسپین میں پچھلے مہینے کے دوران فروخت میں دھماکہ خیز اضافہ ہوا۔ لا وولتا سائیکل ریس میں احتجاج اور کاتالونیا و باسک ملک میں مظاہروں نے فلسطینی پرچم کو علامت بنا دیا۔ دکانوں میں یہ تقریباً ختم ہو چکے ہیں جبکہ آن لائن خریداری پر ایک سے دو ہفتے انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ ایمیزون اسپین پر سب سے زیادہ فروخت ہونے والی اشیا میں پہلے نو نمبروں پر فلسطینی پرچم ہیں۔ صرف رواں مہینے میں ایک لاکھ سے زائد پرچم فروخت ہوئے، جب کہ رواں سال کا کل اعداد و شمار دس لاکھ تک پہنچ سکتا ہے۔

فوینلابرادا کے صنعتی علاقے کوبو کالیا میں “لو کاسٹ پرچموں” کے تاجر جولیئو چانگ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اسٹاک ختم ہو گیا ہے۔ “ہزاروں پرچم منگوائے تھے، سب بک گئے۔ نئے آرڈرز میں وقت لگے گا کیونکہ دنیا بھر میں سپلائی کم ہے”۔ آن لائن مارکیٹ میں چینی اور فرانسیسی کمپنیاں زیادہ فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق نومبر میں بلباو میں باسک اور فلسطینی فٹبال ٹیموں کے درمیان دوستانہ میچ کے موقع پر فروخت مزید بڑھے گی۔ اسی طرح چیمپئنز لیگ اور یورولِیگ کے مقابلوں میں بھی فلسطینی پرچم نمایاں ہونے کی توقع ہے۔ اس دوران حکومتِ ہسپانیہ کے بیانات بھی عوامی جوش کو بڑھا رہے ہیں۔ وزیرِاعظم پیدرو سانچیز اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف اختیار کر چکے ہیں اور “نسل کشی” کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں۔
فیلتروس اویروس کے بزرگ کاریگر اینخل پنیگوا کا کہنا ہے: “یہ سب ایک لہر ہے، وقت کے ساتھ گزر جائے گی۔ ماضی میں یوکرین کے پرچم سب سے زیادہ بکے تھے، آج فلسطین کے ہیں۔” ان کے مطابق فلسطینی پرچم کی طلب نے امریکا، برطانیہ اور فرانس کے پرچموں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔