سانچیز کی معاشی پالیسیوں کی کامیابی نے دائیں بازو کو لاجواب کردیا

IMG_0777

میڈرڈ (دوست مانیٹرنگ ڈیسک) اسپین آج دنیا کی معیشت میں ایک حیران کن مثال کے طور پر سامنے آیا ہے۔ معروف ادارے آکسفورڈ اکنامکس نے کہا ہے کہ ہسپانوی معیشت ’’اب بھی کششِ ثقل کو چیلنج کر رہی ہے‘‘۔ یہ تعریف محض ایک جملہ نہیں بلکہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اسپین نے غیر یقینی حالات میں بھی استحکام اور ترقی کا راستہ اپنایا ہے۔

یہ پیش رفت وزیرِاعظم پیدرو سانچیز کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جنہوں نے ایک متوازن، جدید اور جامع ماڈل متعارف کرایا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی تازہ رپورٹ کے مطابق، اسپین 2025 اور 2026 میں ترقی کرنے والی سب سے بڑی معیشت ہوگی، جو یوروزون کی مجموعی شرح نمو سے دوگنی ہوگی۔

اعداد و شمار کے مطابق، اسپین آج 2018 کے مقابلے میں 13 فیصد زیادہ خوشحال ہے۔ اس دوران نہ صرف کورونا وبا اور یوکرین جنگ جیسے بڑے بحرانوں کا سامنا کیا گیا بلکہ ترقی کی رفتار فرانس، اٹلی اور جرمنی سے بھی کہیں زیادہ رہی۔ 2024 میں اسپین نے فی کس آمدنی میں جاپان کو پیچھے چھوڑ دیا اور 2025 میں جنوبی کوریا کو بھی عبور کرنے کی توقع ہے۔

سانچیز حکومت کی پالیسیوں نے اسپین کو صنعت، سبز ٹیکنالوجی، ڈیجیٹلائزیشن اور اختراع جیسے کلیدی شعبوں میں نمایاں مقام دلایا ہے۔ آکسفورڈ اکنامکس کے ماہر ڈینیئل کرال کے مطابق ’’اسپین صرف سیاحت اور شراب تک محدود نہیں‘‘ بلکہ اس کی صنعت فرانس، بیلجیم اور نیدرلینڈز سے زیادہ قدر پیدا کر رہی ہے۔

روزگار کے محاذ پر بھی ریکارڈ کامیابیاں سامنے آئی ہیں۔ ملک میں پہلی بار 2 کروڑ 16 لاکھ سے زائد افراد سوشل سکیورٹی کے تحت کام کر رہے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح 2007 کے بعد کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ حکومت نے کم از کم اجرت میں 2018 سے اب تک 54 فیصد اضافہ کیا ہے اور پنشن کو مہنگائی کے مطابق ایڈجسٹ کیا جا رہا ہے۔

بین الاقوامی میڈیا اور ادارے اسپین کو یورپ کی ’’نیا اقتصادی ستارہ‘‘ اور ’’سب سے متحرک معیشت‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ دی اکانومسٹ نے گزشتہ برس اسپین کو ’’دنیا کی بہترین معیشت‘‘ کہا تھا۔

اس سب کے باوجود، حزبِ اختلاف کی جماعتیں پاپولر پارٹی (پی پی) اور ووکس بدستور یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ’’اسپین غلط سمت میں جا رہا ہے‘‘۔ مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ محض سیاسی نعرے ہیں، جنہیں عملی اعداد و شمار نے جھٹلا دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، پیدرو سانچیز نے ایک ایسا ماڈل پیش کیا ہے جو معیشت کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف، روزگار کی بہتری اور عالمی سطح پر ملک کے وقار کو بھی یقینی بناتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو آج دائیں بازو کی سیاست کے لیے سب سے بڑی آزمائش بن چکی ہے۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے