“امن منصوبے سے زیادہ ایک الٹی میٹم” ہے،سفیر حسنی عبد الواحد

IMG_0822

بارسلونا، 30 ستمبر (دوست نیوز)اسپین میں فلسطینی سفیر حسنی عبد الواحد نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کے لیے پیش کردہ منصوبہ “امن منصوبے سے زیادہ ایک الٹی میٹم” ہے، جو صرف اسرائیلی مفادات کو سامنے رکھتا ہے۔

انہوں نے منگل کو سیر کاتالونیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس منصوبے میں کچھ “ایسے سجاوٹی پہلو ہیں جن سے بظاہر لگے کہ یہ فلسطینی عوام کی امنگوں کو مدنظر رکھتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ وہی پرانی باتیں ہیں”۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اسرائیل واقعی کسی معاہدے کا خواہاں ہے تو سب سے پہلے “نسل کشی” کو روکنا ہوگا۔

فلسطینی سفیر نے افسوس کا اظہار کیا کہ منصوبے میں مغربی کنارے کا ذکر نہیں کیا گیا اور یہ اسرائیل کو “کھلی چھوٹ” دیتا ہے کہ اگر حماس اس تجویز کو مسترد کرے تو وہ آزادانہ کارروائی کرے۔ ان کے مطابق وہ نہیں جانتے کہ حماس اس بارے میں کیا فیصلہ کرے گا کیونکہ اس گروپ کے ساتھ کوئی رابطہ یا ہم آہنگی موجود نہیں ہے۔

سفیر نے کہا کہ اس منصوبے کی پچھلی مثالیں حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ٹرمپ پہلے غزہ کو “مشرقی ریویرا” میں بدلنے کی تجویز دے چکے ہیں۔ اسی کے ساتھ انہوں نے برطانوی سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کو نامزد “امن کونسل” میں شامل کرنے کی تجویز کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا: “انہوں نے عراقی عوام کے خلاف نسل کشی میں حصہ لیا اور اسرائیلی مفادات کی نمائندگی کی۔”

یہ سوال اٹھنے پر کہ آیا فلسطینی کسی مستقبل کے حکومتی ڈھانچے میں حماس کو شامل کرنے پر تیار ہوں گے، عبد الواحد نے کہا کہ “خود حماس اعلان کر چکا ہے کہ وہ حکومت کا حصہ نہیں ہوگا” اور یہ کہ اگر نسل کشی روکی جائے اور فلسطینی عوام کے لیے مستقبل کی امید قائم ہو تو وہ خود کو الگ کر لیں گے۔

انہوں نے اسپین کے ساتھ بہترین دو طرفہ تعلقات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہسپانوی حکومت کے پاس اس حوالے سے “بے پناہ قیادت کی صلاحیت” ہے۔ ان کے مطابق اصل مقصد صرف فلسطینی ریاست کا باضابطہ اعتراف نہیں بلکہ اس کے بعد دو ریاستی حل کا عملی نفاذ ہونا چاہیے۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے