غزہ میں ’’جنگ‘‘ نہیں ’’نسل کشی‘‘ ہو رہی ہے،سیاسی اتحاد سومار

IMG_1262

میڈرڈ(دوست نیوز)سیاسی اتحاد سومار کی رابطہِ عامہ کی سربراہ لارا ہرناندیز نے غزہ کے مسئلے پر امن کانفرنس کے انعقاد کی تجویز کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی معاہدے کی نگرانی اقوامِ متحدہ کو کرنی چاہیے اور اس میں فلسطینی عوام کو براہِ راست شامل کیا جانا ضروری ہے۔

ان کے مطابق، امن کی راہ کوئی ’’نجی معاہدہ‘‘ نہیں ہو سکتی جیسا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے درمیان ممکنہ طور پر طے پایا جا رہا ہے۔ ہرناندیز نے نیتن یاہو کو ’’جنگی مجرم‘‘ قرار دیا۔

دوسری جانب، پودیموس کے تنظیمی سیکریٹری اور ترجمان پابلو فرناندیز نے نائب صدر یولاندا دیاث کی جانب سے پیش کردہ اس امن کانفرنس کی تجویز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں ’’جنگ‘‘ نہیں بلکہ ’’نسل کشی‘‘ ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق، اگر اس فورم کو ’’انسدادِ نسل کشی‘‘ یا ’’ریاستی دہشت گردی کے خلاف کانفرنس‘‘ کہا جائے تو یہ زیادہ حقیقت پسندانہ ہوگا۔

لارا ہرناندیز نے پیر کے روز میڈرڈ میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پائیدار اور منصفانہ امن اسی وقت ممکن ہے جب اس عمل میں فلسطینی قیادت کو شامل کیا جائے، نہ کہ محض امریکی منصوبے پر انحصار کیا جائے۔

انہوں نے زور دیا کہ میڈرڈ میں ایسی کانفرنس ہونی چاہیے جو اسپین کی حکومت کے زیرِ اہتمام ہو اور بین الاقوامی برادری کی موجودگی میں تین نکات پر مبنی ہو:

  1. قابلِ تصدیق فائر بندی،
  2. فلسطینی عوام کی شمولیت،
  3. اور اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں معاہدے کی ضمانت۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر امن منصوبہ مسٹر ٹرمپ کی مرضی کی محفل میں ایک جنگی مجرم نیتن یاہو کے ساتھ طے پائے، جس میں بین الاقوامی ضمانتیں نہ ہوں اور فلسطینی عوام کا کردار شامل نہ ہو، تو ایسا منصوبہ نہ منصفانہ ہوگا نہ پائیدار۔‘‘

ادھر پودیموس کے ترجمان نے الگ پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے جنگ کہنا غلط ہے، یہ ایک کھلی نسل کشی ہے،‘‘ اور اسی لیے انہیں ’’کانفرنس برائے امن‘‘ جیسی اصطلاح ناگوار گزرتی ہے۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے