ٹرمپ نے غزہ امن معاہدہ پر مصر میں عالمی رہنماؤں کی موجودگی میں دستخط کر دیئے

شرم الشیخ (دوست مانیٹرنگ ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں ایک تاریخی تقریب کے دوران غزہ میں دو سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امن معاہدے پر دستخط کر دیے۔ تقریب میں دنیا بھر کے رہنما موجود تھے، جنہوں نے ٹرمپ کی قیادت میں ہونے والے اس امن عمل کو سراہا۔
اس موقع پر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ “آج مشرقِ وسطیٰ کے لیے سنہری دور کا آغاز ہو رہا ہے۔” انہوں نے کہا کہ “بہت سے لوگ سمجھتے تھے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن ممکن نہیں، مگر یہ آج ممکن ہو گیا ہے۔ میں نے زندگی میں بہت سے معاہدے کیے ہیں، لیکن یہ ان سب سے اہم ہے۔”
اس تاریخی معاہدے کی میزبانی مصر نے کی، جب کہ امریکہ، قطر اور ترکی نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔ تقریب میں تاخیر اس وقت ہوئی جب ٹرمپ کی اسرائیل سے آمد میں کئی گھنٹے لگ گئے، تاہم مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور دیگر عالمی رہنماؤں نے ان کا انتظار کیا۔
شرم الشیخ کی فضاؤں میں “ٹرمپ اور السیسی – امن کے لیے متحد” کے نعروں والے بینرز آویزاں تھے۔ تقریب سے قبل حماس نے 20 یرغمالیوں کو زندہ اور 28 کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کیں، جو 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے دوران اغوا کیے گئے تھے۔
اس موقع پر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس (ابو مازن) موجود تھے، جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے شرکت نہیں کی۔ حماس کو مدعو نہیں کیا گیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ “حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے، جو کسی بھی صورت مستقبل کے فلسطینی نظامِ حکومت کا حصہ نہیں بن سکتی۔”
یورپی رہنماؤں نے اس معاہدے کو “تاریخی سنگِ میل” قرار دیا۔ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے کہا، “یہ پہلا قدم ہے، ضروری ہے کہ تمام فریق اس منصوبے پر عمل کریں۔” برطانوی وزیراعظم کیر اسٹارمر نے زور دیا کہ “پائیدار امن کے لیے اس منصوبے کا نفاذ ناگزیر ہے۔”
یورپی کمیشن کی صدر ارسلا فان در لیئن نے کہا کہ “شرم الشیخ میں ہونے والا یہ معاہدہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ یورپی یونین اس کے نفاذ میں ہر ممکن تعاون کرے گی۔”
اس موقع پر اسپین کے وزیراعظم پیدرو سانچیز بھی تقریب میں موجود تھے، جبکہ جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے کہا کہ “امریکہ اور صدر ٹرمپ کا کردار فیصلہ کن رہا ہے، اور اسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔”
تقریب کے اختتام پر ٹرمپ نے پرجوش انداز میں کہا، “جنگ ختم ہو گئی ہے۔ جنگ ختم ہو گئی ہے، سمجھ رہے ہیں آپ؟”
معاہدے کے بعد اب اصل امتحان اس بات کا ہے کہ آیا جنگ بندی برقرار رہتی ہے یا نہیں۔ معاہدے کے مطابق اسرائیلی فوج کو مکمل طور پر غزہ سے نکلنا ہوگا اور حماس کے عسکری ڈھانچے کے خاتمے کے بعد فلسطینی خود حکومتی نظام کی تشکیل پر عمل شروع ہوگا۔
یہ دن نہ صرف غزہ بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک نئے باب کا آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔