پیوٹن اورٹرمپ کی ہنگری میں ملاقات،گرفتاری نہیں ہوگی، وزیر اعظم وکٹر اوربان کی پیوٹن کو فون پر یقین دہانی

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن جنگی جرائم کے الزامات پر بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے وارنٹ گرفتاری کے باوجود ہنگری میں ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے جا رہے ہیں۔ بظاہر یہ حیران کن ہے، کیونکہ ہنگری کے اردگرد تمام ممالک اس عدالت کے رکن ہیں اور ان کے دستخط اسٹیچوٹ آف روم پر موجود ہیں۔ تاہم، عملی طور پر اس قانون کا نفاذ ہر ملک کے اپنے فیصلے پر منحصر ہے۔
وزیر اعظم وکٹر اوربان نے پیوٹن کو فون پر یقین دہانی کرائی ہے کہ بوداپسٹ میں سربراہی اجلاس کے لیے تمام انتظامات محفوظ ہوں گے۔ یاد رہے کہ اوربان نے حال ہی میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی آمد سے قبل اسٹیچوٹ آف روم سے دستبرداری کا فیصلہ کیا تھا تاکہ گرفتاری کی قانونی مجبوری پیدا نہ ہو۔
اسی طرز پر پیوٹن کا سفر بھی خصوصی منصوبہ بندی کے تحت ممکن بنایا جا رہا ہے۔ اگرچہ ہنگری کا روس سے براہ راست زمینی رابطہ نہیں ہے، لیکن روس دوست ممالک جیسے سربیا یا دیگر بالکان ریاستوں کے ذریعے پرواز کا راستہ تیار کیا جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی قانون میں ایک “سرمئی علاقہ” موجود ہے جس کے تحت بعض ممالک سفارتی استثنا یا مخصوص اجازت کے ذریعے آئی سی سی کے وارنٹ پر عمل درآمد سے بچ سکتے ہیں۔
معاہدے کے آرٹیکل 89 کے مطابق گرفتاری کی ذمہ داری صرف اسی وقت عائد ہوتی ہے جب مطلوب شخص کسی رکن ملک کے زیرِ قبضہ علاقے یا طیارے میں جسمانی طور پر موجود ہو۔ صرف کسی ملک کے فضائی حدود سے گزرنے پر گرفتاری لازم نہیں، جب تک طیارہ وہاں اترے یا اسے زبردستی اتارا جائے۔
اسی خدشے کے باعث نیتن یاہو نے اسپین یا فرانس کے فضائی حدود سے گزرنے سے گریز کیا تھا تاکہ ہنگامی صورتِ حال میں ممکنہ گرفتاری سے بچ سکیں۔
بوداپسٹ پیوٹن کے لیے سب سے محفوظ اور سیاسی طور پر موزوں مقام سمجھا جا رہا ہے۔ اوربان روس کے سب سے قریبی یورپی اتحادی ہیں اور یوکرین کی حمایت کے سخت مخالف۔ اس ملاقات سے تینوں فریقوں کو فائدہ ہوگا:
- ٹرمپ اپنے یورپی اتحادی اوربان کی حمایت کرتے ہیں،
- اوربان اپنی کمزور سیاسی پوزیشن کو مضبوط بناتے ہیں،
- جبکہ پیوٹن تقریباً چار سال بعد پہلی بار یورپی یونین اور نیٹو کے رکن ملک میں قدم رکھ سکیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1994 میں اسی شہر بوداپسٹ میں روسی صدر بورس یلسن نے وہ معاہدہ دستخط کیا تھا جس میں یوکرین کی خودمختاری کو تسلیم کیا گیا تھا، وہی معاہدہ جسے پیوٹن نے 2014 میں توڑا اور 2022 سے اب تک مسلسل پامال کر رہا ہے۔