یورپ میں موسمِ گرما و سرما کے وقت کی تبدیلی ختم کی جائے،سانچیز کی تجویز

IMG_2411

میڈرڈ (دوست مانیٹرنگ ڈیسک)اسپین کے وزیرِاعظم پیدرو سانچیز نے کہا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ یورپ میں ہر سال گھڑیوں کا وقت آگے پیچھے کرنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ “سچ پوچھیں تو اب اس کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔” حکومت نے اس عمل کو “ایک فرسودہ روایت” قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ یورپی کونسل میں موسمِ گرما اور موسمِ سرما کے اوقات کی تبدیلی ختم کرنے کی تجویز پیش کرے گی۔

حکومت کے مطابق “اب گھڑیوں کا وقت بدلنے سے نہ توانرجی کی بچت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی عملی فائدہ، بلکہ یہ لوگوں کی صحت اور معمولات پر منفی اثر ڈالتا ہے۔” حکومت نے اس اقدام کو “سائنسی طور پر ثابت شدہ” اور “عوامی مفاد میں ضروری” قرار دیا۔

سانچیز کے مطابق دو میں سے تین اسپانش شہری وقت کی تبدیلی ختم کرنے کے حق میں ہیں، جب کہ یورپی پارلیمنٹ اور یورپی کمیشن بھی چھ سال قبل اس تجویز کی حمایت کر چکے ہیں۔ اب حکومت چاہتی ہے کہ یورپی کونسل بھی “حتمی قدم” اٹھائے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اسی وقت ممکن ہے کیونکہ موجودہ نظام 2026 میں ختم ہو رہا ہے۔سانچیز نے کہا “یہی موقع ہے فیصلہ کرنے کا، اور اسپین یورپ کو موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں قیادت کرنا چاہتا ہے۔ یہ عام فہم، صحت اور سائنسی ہم آہنگی کا معاملہ ہے،” 

فی الحال حکومت نے یہ واضح نہیں کیا کہ مستقل طور پر موسمِ گرما کا وقت برقرار رکھا جائے گا یا موسمِ سرما کا۔ وزیرِ صدارت فیلکس بولانوس کے مطابق “یہ بات کھلی رکھی گئی ہے تاکہ تمام ممالک سے مشاورت ہو سکے۔ ہمیں لچک دکھانی ہوگی تاکہ اتفاقِ رائے پیدا ہو۔”

بولانوس نے یاد دلایا کہ 2018 اور 2019 میں بھی یہی تجویز سامنے آئی تھی مگر یورپی ممالک کے درمیان اتفاق نہ ہونے کے باعث یہ پیش رفت رک گئی تھی۔ اب اسپین ایک بار پھر کوشش کرے گا کہ تمام رکن ممالک کی رائے لے کر فیصلہ طے کیا جائے تاکہ سال میں دو بار گھڑیوں کا وقت بدلنے کا سلسلہ ختم ہو۔

حکومت کے مطابق یورپ کو اپنی عوام کی آواز سننی چاہیے اور فوری اقدام کرنا چاہیے۔ “ہم ایسی یورپی یونین چاہتے ہیں جو لوگوں کی روزمرہ زندگی کے مطابق فیصلے کرے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ یورپ کو گھڑی نہیں بلکہ انسانوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے،” حکومت نے کہا۔

اسپین کی یہ تجویز آج یورپی یونین کے ٹرانسپورٹ، ٹیلی کمیونیکیشن اور انرجی کونسل کے اجلاس میں پیش کی جائے گی۔ حکومت تین نکات پر اپنی پالیسی کی بنیاد رکھتی ہے:

  1. عوامی حمایت (اسپین میں 66 فیصد لوگ اس کے حامی ہیں)
  2. توانائی کی بچت کے حوالے سے کوئی سائنسی ثبوت نہ ہونا
  3. انسانی صحت اور نیند کے نظام پر اس تبدیلی کے منفی اثرات

1980 میں یورپی ممالک نے یہ نظام اس نیت سے اپنایا تھا کہ روشنی کے زیادہ استعمال سے بجلی کی بچت ہوگی، لیکن حکومت کے مطابق اب معاشی و تکنیکی تبدیلیوں کے باعث یہ منطق پرانی ہو چکی ہے۔

سانچیز کے مطابق “یورپ کو اب اپنے فیصلے وقت کے ساتھ بدلنے چاہییں۔ عوام کی رائے، سائنسی تحقیق اور دورِ حاضر کی ضرورتیں سب یہی کہتی ہیں کہ گھڑیوں کا وقت بدلنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔”

جنرالیتات کے صدر سلوادور اییا نے بھی اس تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا: “ہم اسپین کی اس تجویز کے ساتھ ہیں تاکہ یورپ کو لوگوں کے مطابق ہم آہنگ کیا جا سکے، گھڑیوں کے مطابق نہیں۔”

اپوزیشن جماعت پاپولر پارٹی (PP) نے اس تجویز کی حمایت تو کی، مگر ساتھ ہی الزام لگایا کہ سانچیز یہ موضوع “دوسرے مسائل سے توجہ ہٹانے” کے لیے چھیڑ رہے ہیں۔ پارٹی کی رہنما کوکا گامارا نے کہا: “یہ نیا موضوع نہیں، یورپ میں برسوں سے اس پر بات ہو رہی ہے۔ لیکن سانچیز کے اپنے سیاسی اور عدالتی مسائل اس سے حل نہیں ہوں گے۔”

ان کے مطابق “چاہے وقت بدلے یا نہ بدلے، خود روزگار افراد، مکانات اور دیگر مسائل پر حکومت کے وعدے پورے نہیں ہو رہے۔” گامارا نے کہا کہ “یہ اقدام زندگی نہیں بدلے گا، البتہ فیصلہ یورپی سطح پر ہونا چاہیے۔”

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے