سانچیز کی ٹرمپ سے صلح کی کوشش: امریکا سے اسلحہ خریدنے کا فیصلہ، مگر دفاعی بجٹ میں اضافے سے انکار

IMG_2804

برسلز (دوست مانیٹرنگ ڈیسک)اسپین نے بالآخر نیٹو کی اس مہم میں شمولیت اختیار کر لی ہے جس کے تحت رکن ممالک امریکی اسلحہ خرید کر یوکرین کو فراہم کریں گے۔ وزیراعظم پیدرو سانچیز نے یہ قدم ایسے وقت اٹھایا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ ہفتوں میں اسپین پر دفاعی اخراجات کم رکھنے پر سخت تنقید کی تھی۔

سانچیز نے برسلز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسپین اپنے دفاعی بجٹ میں 2029 تک 2 فیصد تک اضافہ کرے گا، لیکن اس سے زیادہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا، “صدر ٹرمپ جانتے ہیں کہ میں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں اور پچھلی حکومتوں کی کوتاہیوں کو بھی پورا کیا ہے۔”

ٹرمپ کی خواہش ہے کہ اسپین نیٹو کی مجموعی حکمتِ عملی کے مطابق 5 فیصد دفاعی اخراجات تک پہنچے، لیکن سانچیز نے واضح کر دیا کہ وہ اس سے آگے نہیں جائیں گے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل کا خیال ہے کہ اسپین صرف 3.5 فیصد بجٹ سے طے شدہ اہداف حاصل نہیں کر پائے گا۔

ادھر یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے بھی کہا کہ “2 فیصد بجٹ شاید ناکافی ہو، مگر 5 فیصد بالکل غیر منطقی ہے۔”

اسی دوران، نیٹو کی نئی اسلحہ فراہمی اسکیم (PURL) میں شامل ممالک میں اب اسپین اور فن لینڈ بھی شامل ہو گئے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت تقریباً 2 ارب ڈالر مالیت کا امریکی اسلحہ یوکرین بھیجا جائے گا۔ اس سے قبل جرمنی، کینیڈا، نیدرلینڈز، ڈنمارک، ناروے اور سویڈن اس پروگرام میں شریک ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے برسلز میں ایک بار پھر مطالبہ کیا کہ روس پر دباؤ بڑھایا جائے۔ ان کا کہنا تھا، “جنگ بندی سب چاہتے ہیں، مگر اس کے لیے روس پر سخت دباؤ ضروری ہے۔” زیلنسکی نے روسی حملوں کو “شہری آبادی پر جارحیت” قرار دیا اور کہا کہ “یہ دنیا کی دوسری بڑی فوج بچوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔”

انہوں نے امریکی طرز کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹوماہاک میزائلوں کی فراہمی کی امید بھی ظاہر کی، اور کہا کہ “کل جو ناممکن لگتا ہے، وہ آج حقیقت بن جاتا ہے۔”

ادھر امریکہ نے روس کی دو بڑی تیل کمپنیوں Lukoil اور Rosneft پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ان اقدامات کو “غیر دوستانہ عمل” قرار دیا۔

زیلنسکی نے زور دیا کہ روس کے منجمد اثاثے یورپ میں یوکرین کے اندر اسلحہ سازی کے لیے استعمال کیے جائیں تاکہ جنگی صلاحیت میں فوری اضافہ کیا جا سکے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ امن مذاکرات اسی وقت ممکن ہیں جب روس حقیقی طور پر جنگ بندی کی نیت دکھائے۔

انہوں نے ایک ممکنہ سہ فریقی اجلاس (پیوٹن، ٹرمپ اور خود) کے امکان کو رد نہیں کیا، لیکن کہا کہ موجودہ حالات میں ایسا کوئی باضابطہ منصوبہ زیرِ غور نہیں۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے