تحریک کشمیر اسپین اور ندائے کشمیر ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام یوم سیاہ کا احتجاجی مظاہرہ
بارسلونا(دوست نیوز)تحریک کشمیر اسپین اور ندائے کشمیر ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام 27 اکتوبر یوم سیاہ کا پلاسا یونیورستیتات میں اجتماع ہوا۔جس میں پاکستانی وکشمیری کمیونٹی نے پاکستانی اور کشمیری پرچموں کے ساتھ شرکت کی۔

احتجاجی مظاہرہ کا آغاز تلاوت قرآن مجید اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہوا۔

اسٹیج سیکرٹریز کے فرائض محند شفیق تبسم اور راجہ مختار سونی نے سرانجام دئیے
مقررین نے یوم سیاہ کے حلاوہ سے اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہا۔ 27 اکتوبر یومِ سیاہ اس تلخ دن کی یاد دلاتا ہے جب بھارت نے جموں و کشمیر پر غیر قانونی قبضہ کیا۔مگر بہادر کشمیری عوام آج بھی ظلم و جبر کے خلاف اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ان کی قربانیاں، عزم اور حوصلہ ہم سب کے لیے حریت و انصاف کی روشن مثال ہیں۔
تاریخی طور پر بھارت یہ مؤقف اختیار کرتا ہے کہ جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947 کو “Instrument of Accession” پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت کشمیر نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دستاویز کی اصل کاپی آج تک کسی بھی بین الاقوامی فورم، عدالت، یا اقوام متحدہ کے سامنے پیش نہیں کی گئی۔ بھارت نے ہمیشہ یہ مؤقف رکھا کہ یہ ایک “قانونی” الحاق تھا، مگر اس کی تصدیق کے لیے مطلوبہ ثبوت کبھی فراہم نہیں کیا

بھارت کو سات دہائیوں بعد بھی وہاں سات سے آٹھ لاکھ فوجی رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟اگر کشمیری عوام بھارت کے فیصلے سے مطمئن ہیں، تو پھر اتنی سخت سیکیورٹی، کرفیو، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیوں جاری ہیں؟ 2019 میں آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کرنے کے بعد بھارت نے جو قدم اٹھایا، اس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی اور کشمیری عوام کے سیاسی و معاشرتی حقوق مزید محدود کر دیے۔ اس کے بعد سے پورے خطے کو عملی طور پر ایک فوجی چھاؤنی بنا دیا گیا ہے۔ اگر بھارت واقعی کشمیریوں کو اُن کے حقِ خودارادیت کے مطابق بولنے، فیصلے کرنے اور آزادانہ طور پر اپنے مستقبل کا تعین کرنے کا موقع دے دے تو بھارت کی فوجی گرفت اس علاقے پر برقرار نہیں رہ پائے گی۔ یہ منطق منطقی بھی ہے اور تاریخی مثالوں سے مطابقت بھی رکھتی ہے: جب ایک قابض طاقت مقامی عوام کی مخالفت، لاک ڈاؤن اور سخت سکیورٹی پر طویل عرصہ قائم رہے تو وہ اپنی قانونی و اخلاقی جواز کھوتی ہے اور مزاحمت بڑھتی ہے

مقررین نے کہا کہ جذبات سے ہٹ کر، عقلی اور تاریخی بنیاد پر کشمیر کے مسئلے کو سمجھنا اور سمجھانا ہی وہ راستہ ہے جو لوگوں میں شعور پیدا کرتا ہے۔جب آپ اپنے دوستوں یا نوجوانوں کے درمیان کشمیر کے بارے میں بات کریں تو گفتگو کو احساسات کے ساتھ مگر دلیل کے دائرے میں رکھنا چاہیے۔

نیلسن منڈیلا ایک تھا اور کشمیر کے اندر لاکھوں نیلسن منڈیلا موجود ہیں جو مسرت عالم کی صورت میں ہوں وہ آسیہ اندرابی کی شکل میں ہوں وہ یسین ملک کی صورت میں ہوں وہ قاسم پھتو کی شکل میں ہوں وہ اشرف صحرائی کی شکل میں موجود ہیں وہاں پہ میرے بھائیو آج ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنے بچوں میں اور لوگوں میں جہاں بیٹھیں گے جس طرح یہاں پہ فلسطین کے مسئلہ کو جاگر کیا گیا ہم اسی طرح سے کشمیر کے مسئلہ کو جاگر کریں گے۔

مقررین میں سردار محمد ارشد،محمد شفیق تبسم،محمد اقبال چوہدری،حاجی راجہ اسد حسین،ملک محمد شریف ،چوہدری ساجد گوندل،حافظ عبدالرزاق صادق اور دیگر شامل ہیں

احتجاجی مظاہرہ میں خواتین نے بھی شرکت کی اور دو طالب علم لڑکیوں نے بھی یوم سیاہ کشمیر کے حوالہ سے خطاب کیا