پدرون فراڈ کا دوسرا پہلو،ڈاکٹر ہماجمشید اور اقبال چوہدری کیا کہتے ہیں،اسپانش ٹی وی رپورٹ
Screenshot
بارسلونا(تحریر: فیران مورینو )سانت کُگات دل ویلّیس (Catalunya) لوردیس کنیامیراس کے لیے یہ ایک حیرت کا جھٹکا تھا جب اس نے اپنے گھر کے پوسٹ بکس میں ایک اجنبی کے نام صحت کارڈ پایا۔ کارڈ ایک بنگلہ دیشی شخص کے نام پر تھا، مگر پتہ لوردیس کے گھر کا درج تھا۔
حیران ہو کر جب اس نے میونسپلٹی سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے پتے پر سات ایسے افراد رجسٹرڈ ہیں جنہیں وہ جانتی تک نہیں۔“یہ سب میرے گھر میں اندراج شدہ تھے!” لوردیس حیرت سے کہتی ہیں۔“نہ مجھے معلوم کہ یہ کہاں کے ہیں، نہ کہاں سے آئے، پولیس والا بھی دنگ رہ گیا۔”
سانت کُگات کی میونسپلٹی نے اگست میں 322 ایسے افراد کو شہری فہرست (پدرو) سے خارج کیا جن کے رہائشی پتے جعلی ثابت ہوئے۔ ان سب نے فرضی کرایہ نامے جمع کروائے تھے۔ کئی افراد مقامی زبان سے ناواقف تھے اور مترجم کے ہمراہ آئے تھے۔
مقامی پاکستانی کمیونٹی کا کہنا ہے کہ اصل میں یہ لوگ دھوکے کے شکار ہیں، مجرم نہیں۔ بیشتر وہ تارکینِ وطن ہیں جو اپنے اصل محلِ سکونت یعنی کرایے کے کمروں یا ناقص گھروں میں رجسٹریشن نہیں کروا پاتے۔ کسی نے انہیں پیشکش کی کہ وہ چند سو یورو کے عوض کسی دوسرے پتے پر ان کا اندراج کروا سکتا ہے۔
پاکستانی خواتین کی تنظیم ACESOP کی صدر ہُما جمشید کے مطابق،“بیشتر مہاجرین پورا گھر کرائے پر نہیں لے سکتے، اس لیے کمروں میں رہتے ہیں۔ مگر جب وہ پدرو میں اندراج کروانا چاہتے ہیں تو مشکلات کھڑی کی جاتی ہیں۔”
قانون کے مطابق، ہر اُس شخص کا اندراج ضروری ہے جو کسی بلدیہ میں رہتا ہو، مگر کئی بلدیاتی حکومتیں عملی طور پر رکاوٹیں ڈال رہی ہیں۔
اسی مجبوری کے باعث بہت سے افراد کسی دوسرے کے ذریعے رجسٹریشن کرواتے ہیں اور اس کے بدلے 300 سے 600 یورو تک ادا کرتے ہیں۔سانت کُگات میں کسی نامعلوم شخص نے انہیں جعلی کرایہ نامے فراہم کیے۔
محمد اقبال جو بارسلونا کے مرکز “راؤل کامینو دے لا پاؤ” سے وابستہ ہیں، کہتے ہیں:“یہ سب جھوٹے کاغذات تھے، لوگوں نے پیسے دیے مگر بدلے میں کچھ نہ ملا۔”
آصفہ اور محمد رمضان، جو پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں، نے ایک مقامی شخص کو 4,000 یورو دیے تاکہ وہ انہیں بادالونا میں گھر اور پدرو دلوا دے۔“وہ ہر روز نئی کہانی سناتا تھا کبھی کہتا کسی افسر کو پیسے دینے ہیں، کبھی کہتا کاغذات مکمل ہو رہے ہیں۔ گھر کی تصویریں بھی دکھاتا رہا، مگر سب دھوکہ تھا۔”
نتیجہ یہ نکلا کہ نہ گھر ملا، نہ پیسے واپس، اور نہ ہی اندراج۔
بغیر پدرو کے، ان کے بچے اسکول میں داخل نہیں ہو سکتے، اور ملک میں گزرا وقت بھی ان کے قانونی قیام کے لیے شمار نہیں ہوتا۔دھوکہ دینے والے شخص نے بعد میں انہیں دھمکیاں دینا بھی شروع کر دیں۔
محمد رمضان کہتے ہیں:“ہم ایماندار لوگ ہیں، سوچا تھا کہ اپنا ہم وطن ہمیں دھوکہ نہیں دے گا، مگر ہم غلط نکلے۔ نو مہینے گزر گئے ہیں اور اب جا کر سنبھلنے لگے ہیں۔”
سانت کُگات کے میئر جوزپ ماریا ویئیس کے مطابق:“ہم اس نظام میں مزید فلٹر لگانے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔”
یہ رجحان دیگر شہروں میں بھی بڑھ رہا ہے۔مثلاً مارتوریل کے میئر نے چند ماہ قبل کہا تھا کہ وہ مرکزی حکومت کے اُس قانون پر عمل ضروری نہیں سمجھتے جو ہر رہائشی کو پدرو میں درج کرنے کا پابند بناتا ہے۔
اسی طرح بارسلونا نے بھی اُن بے گھر افراد کے لیے پدرو کے عمل کو محدود کیا ہے جو فلاحی اداروں میں رہتے ہیں۔
ماریا کریشیئی، تنظیم “کوآردینادورا اوبرم فرونتیراس” کی رکن، کہتی ہیں:“اگر بلدیات اپنے شہروں میں رہنے والے ہر شخص کا اندراج کر لیں تو یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ اندراج سے انکار ہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی بنا پر لوگ غیر رسمی یا غیر قانونی راستے اختیار کرتے ہیں۔”
ماہرین: “میئر بادشاہ نہیں، قانون کے تابع ہیں”
سانت کُگات کی عوامی محتسب (Síndica de Greuges)، ہیلینا لوپیز کے مطابق، اصل جڑ مسئلہ رہائش کی کمی ہے۔“اگر سب کے پاس کرایے پر مناسب گھر ہوتے، تو اندراج کا کوئی تنازع نہ رہتا۔”وہ خبردار کرتی ہیں کہ پدرو کا معاملہ سیاسی ہتھیار بنتا جا رہا ہے، اور خوف و بے اعتمادی کو ہوا دی جا رہی ہے۔
محمد اقبال کا بھی یہی کہنا ہے:“ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سرکاری ادارے مل کر ایسا نظام بنائیں جس سے لوگ جعلسازوں کے جال میں پھنسنے کے بجائے باعزت طور پر رجسٹریشن کروا سکیں۔”