بارسلونا میں غیر ملکی نژاد شہری کس اسپانش سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں ؟شہریوں کے رجحان پر مبنی سروے 

Screenshot

Screenshot

بارسلونا(دوست مانیٹرنگ ڈیسک) تازہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بارسلونا میں مقیم غیرملکی نژاد باشندے مقامی آبادی کے مقابلے میں زیادہ قدامت پسند سیاسی رجحان رکھتے ہیں۔ ’’آبزرویٹری آف مائیگریشن اینڈ ریفیوج‘‘ کی رپورٹ کے مطابق، جو ’’انسٹیٹوٹ میٹروپولی‘‘ نے بارسلونا کی میونسپلٹی کے لیے تیار کی ہے، غیرملکی شہریوں میں سے بڑی تعداد خود کو مرکز یا دائیں بازو سے منسلک قرار دیتی ہے۔

رپورٹ جنرالیتات کے ’’سینتر دے استودیس د’اوپینیو‘‘ (CEO) کی 2024 کی سماجی و سیاسی سروے پر مبنی ہے۔ اس کے مطابق، بارسلونا کے 53.8 فیصد مقامی شہری بائیں بازو کی سمت میں جھکاؤ رکھتے ہیں، جب کہ غیرملکی باشندوں میں یہ شرح صرف 32.6 فیصد ہے۔ دوسری جانب، 37 فیصد غیرملکی خود کو مرکز کی سیاست سے وابستہ سمجھتے ہیں، جب کہ اسپین میں پیدا ہونے والوں میں یہ تناسب 25.3 فیصد ہے۔ مزید یہ کہ 18 فیصد غیرملکی دائیں بازو سے خود کو وابستہ سمجھتے ہیں، جب کہ مقامیوں میں یہ شرح 12 فیصد ہے۔

مطالعے کے سربراہ البرت سالس کے مطابق مختلف ممالک کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ مذہبی وابستگی عموماً قدامت پسند اقدار کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ بارسلونا میونسپلٹی کے ’’سروے آف انٹَرکلچرلِٹی‘‘ 2024 کے مطابق، 51.4 فیصد غیرملکی شہری مذہبی طور پر عمل پیرا ہیں، جب کہ ہسپانوی شہریوں میں یہ شرح 28.2 فیصد ہے۔

رپورٹ کے مطابق، غیرملکی نژاد باشندے عمومی طور پر مرکز یا دائیں بازو کی سیاسی پوزیشن رکھتے ہیں، جب کہ اسپین میں پیدا ہونے والے زیادہ تر شہری بائیں بازو کی طرف مائل ہیں۔ اسی فرق کا عکس سیاسی جماعتوں کی ترجیح میں بھی نمایاں ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق، غیرملکی یا دوہری شہریت رکھنے والے افراد 54.2 فیصد شرح سے غیر علیحدگی پسند جماعتوں سے زیادہ وابستہ ہیں، جب کہ اسپین میں پیدا ہونے والوں میں یہ تناسب 39 فیصد ہے۔ اس کے برعکس، غیرملکی شہری علیحدگی پسند جماعتوں سے بہت کم ہمدردی رکھتے ہیں (صرف 8.2 فیصد) جب کہ ہسپانوی شہریوں میں یہ شرح 36.6 فیصد ہے۔

پارٹیوں کی مقبولیت میں بھی فرق واضح ہے۔ غیرملکی شہریوں میں سب سے زیادہ حمایت رکھنے والی جماعت پی ایس سی (PSC) ہے، جسے 23.6 فیصد غیرملکی ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے بعد پی پی (PP) 10.6 فیصد، سیودادانوس (Ciutadans) 6.1 فیصد، اور ووکس (Vox) 4.2 فیصد پر ہیں۔ دوسری طرف، غیرملکیوں میں سُمار-اِن کومو پودیم (Sumar-En Comú Podem)، جونتس (Junts)، ای آر سی (ERC)، سی یو پی (CUP) اور الیانسہ کاتالانا (Aliança Catalana) کی مقبولیت کم پائی گئی۔

البرت سالس کے مطابق، اگرچہ نمونہ محدود ہے، لیکن رجحانات واضح ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر غیرملکی ووٹرز میں سیاسی بےرُخی برقرار رہی تو اثر معمولی ہوگا، تاہم اگر ان کی شرکت میں اضافہ ہوا تو یہ شہر کی سیاست پر نمایاں اثر ڈال سکتی ہے۔

انہوں نے کہا، ’’طویل مدت میں اس تبدیلی کا اثر ضرور ہوگا، کیونکہ بارسلونا کی آبادی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔‘‘ ان کے مطابق غیرملکی باشندوں کی ایک بڑی تعداد معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ووٹ کا حق حاصل کرے گی، جس سے سیاسی منظرنامہ بدل سکتا ہے۔

فی الحال غیرملکی باشندے صرف اسی صورت میں ووٹ دے سکتے ہیں جب وہ ہسپانوی شہریت حاصل کر لیں۔ اس کے علاوہ یورپی یونین کے شہری یورپی اور بلدیاتی انتخابات میں ووٹ دے سکتے ہیں، اور 13 غیر یورپی ممالک کے شہری صرف مقامی انتخابات میں ووٹ دینے کے اہل ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ بارسلونا کی مجموعی آبادی بڑھ رہی ہے، الیکٹورل فہرست میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ مزید یہ کہ 37.3 فیصد غیرملکی باشندوں نے کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستگی ظاہر نہیں کی۔

رپورٹ کے مطابق، 2.5 فیصد غیرملکی شہری خود کو انتہائی دائیں بازو سے منسلک سمجھتے ہیں، جب کہ ہسپانوی شہریوں میں یہ شرح صرف 0.9 فیصد ہے۔ اسی طرح، 40 فیصد غیرملکی یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی مزید آمد شہر کے لیے منفی ہے، جب کہ ہسپانوی شہریوں میں یہ رائے 18.5 فیصد ہے۔ البرٹ سالس کے مطابق، ’’کم آمدنی والے محلوں میں مختلف نئی کمیونٹیز کے درمیان مقابلے کی فضا پیدا ہو جاتی ہے، جہاں اسلام مخالف بیانیہ خود کو نمایاں کرنے کے ایک آسان ذریعے کے طور پر سامنے آتا ہے۔‘‘

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے