امریکی پادری فرینکلن گراہم کی بیونس آئرس میں ہم جنس پرستی اور اسقاط حمل کے خلاف تقاریر

Screenshot

Screenshot

بیونس آئرس9 نومبر 2025(دوست مانیٹرنگ ڈیسک)ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس میں امریکی مبلغ اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی فرینکلن گراہم نے ایک بڑے مذہبی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ہم جنس پرستی اور اسقاط حمل کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا۔ ’’فیسٹیول آف ہوپ‘‘ کے نام سے منعقدہ اس اجتماع میں دو روز کے دوران لگ بھگ تین لاکھ افراد شریک ہوئے۔

فرینکلن گراہم، معروف امریکی مبلغ بلی گراہم کے بیٹے ہیں اور اپنے والد کی طرح سیاسی و مذہبی حلقوں میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ بیونس آئرس کے ویلیز سارسفیلڈ اسٹیڈیم میں ہونے والے اجتماع میں ہزاروں خاندانوں اور نوجوانوں نے شرکت کی۔ تقریب کا آغاز مذہبی نغموں سے ہوا، جس کے بعد گراہم نے مذہبی وعظ پیش کیا اور آخر میں اجتماعی دعا اور ’’گناہوں کی معافی‘‘ کی رسم ادا کی۔

اپنی تقریر میں گراہم نے کہا، ’’انسان زندگی کا مقصد تلاش کر رہا ہے، مگر دل کا خالی پن صرف خدا ہی پُر کر سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’گناہ انسان اور خدا کے درمیان رکاوٹ ہے۔‘‘ گراہم نے اپنی تقریر میں ہم جنس پرستی اور اسقاط حمل کو ’’گناہ‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’خدا نے جنسی تعلق کے استعمال کا حکم دیا ہے، مگر یہ صرف مرد اور عورت کے نکاح کے دائرے میں جائز ہے۔ دو مردوں یا دو عورتوں کے درمیان نہیں۔‘‘ اسقاط حمل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’’خدا کی نظر میں یہ قتل کے مترادف ہے۔‘‘

گراہم کا بیان ارجنٹینا کے موجودہ قوانین سے متصادم ہے، جہاں اسقاط حمل قانونی ہے اور ہم جنس پرستوں کے حقوق تسلیم کیے گئے ہیں۔ تاہم ان کی تقریر میں حکومتِ ارجنٹینا کے بعض حلقوں کی حمایت جھلکتی ہے، خاص طور پر صدر خاویر میلئی کی، جن سے گراہم نے رواں ہفتے ملاقات بھی کی۔ گراہم نے بتایا کہ میلئی نے انہیں حضرت موسیٰ کا حوالہ دیا، جن سے وہ خود کو مشابہ سمجھتے ہیں، اور انہیں بائبل کا تحفہ پیش کیا گیا، جو اجتماع کے شرکا کو بھی تقسیم کی گئی۔

اس سے ایک دن قبل، 31 اکتوبر کو، صدر میلئی نے ایوانِ صدر ’’کاسا روسادا‘‘ میں ارجنٹائن کی ایوینجیلکل چرچز کے نمائندوں سے ملاقات کی تھی، جس کے بعد سرکاری سطح پر پہلی بار ایک مذہبی دعا کی تقریب منعقد ہوئی۔

اعداد و شمار کے مطابق ارجنٹینا کی تقریباً 15 فیصد آبادی ایوینجیلکل عقیدے سے وابستہ ہے، جو براعظمِ لاطینی امریکہ کے اوسط 20 فیصد سے کچھ کم ہے، مگر اس کی سماجی و سیاسی موجودگی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

سماجیات کے ماہر آریل گولڈسٹین کے مطابق ’’ایوینجیلکل تحریک کی اصل طاقت اس کے جذباتی اور اجتماعی تعلق میں ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگرچہ تمام چرچز دائیں بازو کے نظریات کی حمایت نہیں کرتے، مگر کئی پینتی کاسٹل مبلغین حکومت اور عوام کے درمیان رابطہ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

صدر میلئی نے اپنی 2023 کی انتخابی مہم کے دوران مذہبی ووٹرز کو متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی، جو اب عملی سیاست میں جھلک رہی ہے۔ ان کے اتحاد ’’لا لیبرتاد آوانزا‘‘ کے چھ ایوینجیلکل امیدوار حالیہ انتخابات میں کامیاب ہوئے ہیں، جن میں معروف مبلغہ نادیا مارکیز بھی شامل ہیں، جو اسقاط حمل کے خلاف قانون کی منسوخی کی حامی ہیں۔

ماہرین کے مطابق، ٹرمپ اور بولسونارو کی طرز پر، میلئی بھی عوامی حمایت بڑھانے کے لیے مذہبی قوتوں پر انحصار کر رہے ہیں۔ ویلیز اسٹیڈیم میں میلئی کا نام سن کر شرکا کی جانب سے گونجنے والی پرجوش تالیوں نے اس حکمتِ عملی کی کامیابی کو واضح کر دیا۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے