انسانی حقوق کی پرواہ کئے بغیرپناہ گزینوں سے متعلق پالیسیوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی جائیں گی،برطانیہ کا اعلان

Screenshot

Screenshot

لندن، 15 نومبر (دوست امنٹرنگ ڈیسک)برطانوی حکومت نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ ملک میں پناہ گزینوں سے متعلق پالیسیوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی جائیں گی۔ یہ اقدامات ڈنمارک کے سخت ماڈل سے متاثر ہیں، جسے یورپ میں سب سے سخت سمجھا جاتا ہے اور جس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں کڑی تنقید کرتی رہی ہیں۔

لیبر حکومت نے خاص طور پر فرانس سے غیر قانونی کشتیوں کے ذریعے آنے والوں کے مسئلے پر اپنی پالیسی مزید سخت کی ہے۔ حکومت کو ریفارم یو کے پارٹی کے بڑھتے ہوئے اثر کا سامنا ہے، جس نے ملکی سیاست میں امیگریشن کو مرکزی موضوع بنا دیا ہے اور لیبر کو سخت رویہ اپنانے پر مجبور کیا ہے۔

داخلہ وزارت کے مطابق نئی اصلاحات کے تحت بعض پناہ گزینوں کو ملنے والی قانونی مدد، جس میں رہائش اور ہفتہ وار الاؤنس شامل ہیں، ختم کر دی جائے گی۔ یہ تبدیلی ان درخواست گزاروں پر لاگو ہوگی جو کام کر سکتے ہیں مگر کام نہیں کرتے، یا جنہوں نے قانون توڑا ہو۔ حکومت نے کہا کہ ریاستی وسائل ان افراد پر ترجیحی بنیادوں پر خرچ کیے جائیں گے جو معیشت اور مقامی معاشرے میں کردار ادا کر رہے ہوں۔

وزیر داخلہ شبانہ محمود پیر کو مزید تفصیلات جاری کریں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد غیر قانونی آمد کو روکنا اور ملک بدری کے عمل کو آسان بنانا ہے۔ محمود کے مطابق برطانیہ کا روایتی جذبہ انسانیت غیر قانونی راستوں سے آنے والوں کو متوجہ کر رہا ہے اور اس کی وجہ سے مقامی کمیونٹیز پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔

ایک سو سے زیادہ برطانوی فلاحی تنظیموں نے محمود کو خط لکھ کر پناہ گزینوں کو نشانہ بنانے اور نقصان دہ پالیسیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی پالیسیوں سے نسلی منافرت اور تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2025 تک کے سال میں 109,343 افراد نے برطانیہ میں پناہ کی درخواست دی، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ ہے اور 2002 کے بعد سب سے بلند سطح ہے۔

داخلہ وزارت کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی نئی پالیسیوں میں ڈنمارک سمیت کئی یورپی ممالک سے رہنمائی لی گئی ہے، جہاں پناہ کا درجہ عارضی، مدد مشروط اور معاشرے میں انضمام لازمی تصور کیا جاتا ہے۔ برطانیہ اب ان اقدامات کو نہ صرف اپنائے گا بلکہ کئی پہلوؤں میں ان سے آگے بڑھے گا۔

رواں سال برطانوی حکام نے کوپن ہیگن کا دورہ کیا جہاں انہوں نے ڈنمارک کا سخت نظام دیکھا، جس کے تحت پناہ گزینوں کو عام طور پر دو سال کے لیے عارضی رہائش دی جاتی ہے اور مدت پوری ہونے پر دوبارہ درخواست دینا پڑتی ہے۔ اگر حکومت کسی ملک کو محفوظ قرار دے دے تو پناہ گزینوں کو واپس بھی بھیجا جا سکتا ہے۔

ڈنمارک کی پالیسیوں میں پابندیاں اتنی سخت ہیں کہ 2016 کے قانون کے تحت حکام پناہ گزینوں کی قیمتی اشیا ضبط بھی کر سکتے ہیں تاکہ کفالت کے اخراجات پورے کیے جا سکیں۔

اس کے مقابلے میں برطانیہ میں پناہ حاصل کرنے والوں کو پانچ سال کا درجہ دیا جاتا ہے جس کے بعد مستقل رہائش کے لیے درخواست دی جا سکتی ہے۔

برطانوی ریفوجی کونسل نے کہا ہے کہ پناہ کے طلبگار کسی ملک کے نظام کا موازنہ کر کے سفر نہیں کرتے بلکہ وہ ان جگہوں کا رخ کرتے ہیں جہاں خاندان، زبان یا سماجی روابط موجود ہوں۔ تنظیموں کے مطابق ڈنمارک کی سخت پالیسیوں سے تحفظ کا نظام کمزور ہوتا ہے اور پناہ گزین مستقل غیر یقینی کی کیفیت کا شکار رہتے ہیں۔

برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک میں امیگریشن مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں۔ اس سال برطانیہ میں متعدد ہوٹلوں کے باہر احتجاج ہوئے جہاں ریاستی مدد سے پناہ گزین مقیم تھے۔

یورپ میں 2015 اور 2016 کے دوران لاکھوں پناہ گزینوں کی آمد کے بعد سے یورپی یونین کے بیشتر ممالک واپسی اور آمد روکنے پر توجہ دے رہے ہیں۔ ڈنمارک کی سخت پالیسیوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے، اگرچہ ان پر مسلسل تنقید جاری ہے۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے