لوہے کا نقاب پہننے والا قیدی… ایسا معمہ جو 350 سال سے فرانس کو حیران کیے ہوئے ہے
Screenshot
اس کی شناخت آج تک سامنے نہ آ سکی، حالانکہ اس بارے میں کئی نظریات اور امکانات پیش کیے جا چکے ہیں۔
فرانسیسی انقلاب کے آغاز سے پہلے کے برسوں میں پیرس میں باستیل جیل کے بارے میں کئی خوفناک اور پراسرار کہانیاں گردش میں تھیں۔ لوگ کہتے تھے کہ وہاں وحشیانہ تشدد ہوتا ہے اور بہت سے لوگ اس جیل میں داخل تو ہوئے، مگر اس کی تاریک گلیوں سے کبھی واپس نہ آ سکے۔
فلاسفۂ روشن خیالی جن میں وولٹیر بھی شامل ہے۔انھوںنے اپنی تحریروں میں ان قصوں کو مزید ہوا دی، جن میں سے اکثر محض افسانہ تھے، مگر اسی وجہ سے باستیل جیل ظلم و جبر کی علامت بن گئی اور اس کی شہرت بدنامی میں بدل گئی۔
لوہے کا نقاب پہننے والا قیدی فرانسیسی تاریخ کے سب سے پراسرار کرداروں میں شمار ہوتا ہے، جس نے کبھی اپنی شناخت ظاہر نہیں کی۔ اس نے زندگی کے طویل برس اسی جیل میں قید میں گزارے اور بالآخر وہیں اس کی موت واقع ہوئی۔
لوہے کے نقاب والا بے نام قیدی ، تین صدیوں پر محیط معمہ
1669 میں فرانس کے پینیرول (Pignerol) نامی قید خانے میں ایک نامعلوم قیدی کو لایا گیا، جس کے چہرے پر لوہے کا نقاب چڑھا ہوا تھا تاکہ اس کی شناخت پوشیدہ رہے۔ اس پراسرار شخص کو جیل میں منتقل کرنے کا حکم براہِ راست فرانسیسی بادشاہ لوئی چہاردہم نے دیا تھا۔
اپنی قید کے دوران یہ قیدی اپنے جلاد اور نگران بینینی دوفرنيو دی سانٹ مارس کے ساتھ مختلف جیلوں میں منتقل ہوتا رہا۔اس پراسرار قیدی کی پہلی تفصیلی جھلک اپریل 1687 میں اس وقت سامنے آئی جب کچھ لوگوں نے اسے عام راستے میں دیکھا۔
کہانی کے مطابق بادشاہ کے حکم پر بینیرول سے جزیرہ سانٹ مارگریٹ کی طرف اس "ریاست کے قیدی” کو منتقل کیا جا رہا تھا۔ اس قیدی کی شناخت کوئی نہ جانتا تھا، اس کے چہرے پر لوہے کا نقاب تھا اور اسے ایک ایسی بند گاڑی میں لایا گیا۔ جو مزدوروں کے تنگ کندھوں پر اٹھائی جاتی تھی۔
مزید یہ کہ اس قیدی کو سختی سے حکم دیا گیا تھا کہ اپنی شناخت ظاہر نہ کرے اور بادشاہ لوئی چہاردہم نے واضح دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے اپنی حقیقت بیان کی تو وہ فوراً اسے قتل کر دے گا۔
ستمبر 1698 میں اس قیدی کو باستیل جیل منتقل کر دیا گیا، جہاں اس نے اپنی باقی زندگی گزاری اور 19 نومبر 1703 کو وفات پا گیا۔ اس کی موت کے بعد فرانسیسی حکام نے اس کے کپڑے اور ذاتی سامان جلا دیا اور اسے جعلی نام کے تحت سینٹ پول کے قبرستان میں دفن کر دیا۔
لوہے کے نقاب والے قیدی کی پوشیدہ شناخت ، صدیوں پر محیط راز
کئی برس تک لوہے کے نقاب والے قیدی کی شناخت ایک معمہ بنی رہی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اس نقاب کے پیچھے وہ شخص تھا جو دراصل لوئی چہاردہم کا حقیقی والد اور ملکہ آنا آف آسٹریا کا عاشق تھا۔
بعد ازاں فلسفی فولتیر نے بھی اس قیدی کی شناخت سے متعلق قیاس آرائیوں کو مزید ہوا دی، خاص طور پر جب انہیں 1717 میں خود باستیل میں قید کیا گیا۔
فولتیر نے اپنی 1751 میں شائع ہونے والی کتاب میں دعویٰ کیا کہ لوہے کے نقاب والا شخص بادشاہ لوئی چہاردہم کا جڑواں یا بڑا بھائی تھا۔
اس کا کہنا تھا کہ اس قیدی کو قید میں رہتے ہوئے اچھا کھانا اور موسیقی کے آلات بجانے کی اجازت بھی دی گئی تھی۔بعد کے ادوار میں معروف فرانسیسی ادیبوں جیسے وِکٹر ہیوگو اور الیگزینڈر ڈوما نے بھی اپنی تحریروں میں اس کردار کا ذکر کیا اور اس خیال کو تقویت دی کہ شاید وہ قیدی واقعی لوئی چہاردہم کا بھائی تھا۔
جدید مورخین نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔ کچھ کے مطابق اس نقاب کے پیچھے ایوستاش دوگے (Eustache Dauger) تھا، جو بادشاہ کا ایک خفیہ ایلچی تھا اور ریاست کے نہایت حساس رازوں سے واقف تھا۔جبکہ دیگر مورخین کا ماننا ہے کہ وہ قیدی نکولا فوکے (Nicolas Fouquet) ہو سکتا ہے، جو فرانس کا وزیر خزانہ تھا۔ اسے شاہی خزانے سے بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں اور شاہانہ طرزِ زندگی کے الزامات پر قید کیا گیا، جہاں اس کی زندگی کا خاتمہ ہوا۔یہ معمہ آج تک حل نہ ہو سکا اور لوہے کے نقاب والے اس قیدی کی شناخت اب بھی فرانسیسی تاریخ کا سب سے دل چسپ راز بنی ہوئی ہے