بانیٔ پی ٹی آئی و بشریٰ بی بی کی درخواستِ ضمانت، جج کی بات پر عدالت میں قہقہے بکھر گئے
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں بانیٔ پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی ضمانتوں کی درخواستوں پر سماعت کے دوران جج طاہر عباس سِپرا اور بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل نعیم پنجوتھا کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج طاہرعباس نے درخواستوں پر سماعت کی۔
نعیم پنجوتھا نے شکوہ کیا کہ بانیٔ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی حاضری لگائی گئی نہ عدالت میں پیش کیا گیا، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو چاہیے کہ بانیٔ پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش کریں۔
جج طاہر عباس سِپرا نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی کو اصولی طور پر عدالت میں پیش کرنا چاہیے، انہیں تحفظ دینا ریاست کی ذمے داری ہے۔
نعیم پنجوتھا نے کہا کہ اب انٹر نیٹ بھی بند کر دیا گیا ہے، کچہری میں نیٹ کام نہیں کرتا۔
جج طاہر عباس سِپرا نے کہا کہ انٹر نیٹ بڑا بدمعاش ہو گیا ہے۔
جج طاہر عباس سِپرا کے اس جملے پر عدالت میں قہقہے بکھر گئے۔
جج نے کہا کہ آج بانیٔ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی حاضری لگا کر ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ کر دوں گا، اگر ویڈیو لنک پر حاضری نہ لگائی تو مجھے خود فائل اٹھا کر اڈیالہ جیل جانا پڑے گا۔
نعیم پنجوتھا نے جج طاہر عباس سِپرا سے کہا کہ جیل گئے تو آپ کو بھی گرفتار کر لیا جائے گا۔
جج طاہر عباس سِپرا نے کہا کہ ایسا نہ کہیں، میں کچھ نہیں بولوں گا، آپ لوگ کافی پیئیں۔
نعیم پنجوتھا نے کہا کہ متعدد بار پروڈکشن آرڈر کے باوجود سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل بانیٔ پی ٹی آئی کو پیش نہیں کرتے، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو طلب کرنا چاہیے۔
جج طاہر عباس سِپرا نے کہا کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے جواب نہ دیا تو توہینِ عدالت کی کارروائی ہو گی۔
وکیل آمنہ علی نے جج طاہر عباس سِپرا سے کہا کہ عدالتیں ہی آخری امید ہوتی ہیں۔
جج طاہر عباس سِپرا نے کہا کہ آپ درست کہہ رہی ہیں،قانون ہی آخری امید ہوتا ہے۔