بھٹکے ہوئے آہو کر پھر سوئے حرم لے چل۔۔تحریر مظہر حسین راجہ بارسلونا

بھٹکے ہوئے آہو کر پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے
23 مارچ 1940 کی قرارداد مقاصد کی حقیقی روح سے قوم کو محروم رکھا گیا یے۔ برٹش و ہندو راج سے تو وقتی آزادی حاصل ہو گئی مگر آزادی کی اصل روح ، اقبال کے خواب اور قائد کے ویژن کا جنازہ نکالنے میں سیاست دانوں، جرنیلوں ، اور افسر شاہی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
پاکستان کا آئین 1973 سب کو برابر کے حقوق دیتا ہے مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔ ہر طاقتور انصاف خرید لیتا ہے یا چھین لیتا ہے۔ جرائم کی شقیں سیاسی کھینچا تانی میں حریفوں کے خلاف استعمال ہوتی ہیں یا غریب پھنس جائے تو اس پر ٹرائل کے تجربات ہوتے ہیں اور ہزاروں بے گناہ جیلوں میں پڑے ہیں جبکہ جرائم پیشہ افراد دندناتے پھرتے ہیں بلکہ عام آدمی کی جان، مال، عزت لوٹ کر بڑی ڈھٹائی سے عزت دار کہلاتے ہیں۔ حافظ قران، حجاج کرام اور پیر خانوں کے پورے پورے بریگیڈ ہیں اور دوسری طرف خیرات دینے اور لینے میں بھی قوم کا کوئی ثانی نہیں مگر سوال یہ کہ بنیادی اخلاقی اقدار سے مرحومیت کیوں ہے؟ سچائی، دیانتداری، وعدہ کی پاسداری کا فقدان کیوں ہے؟ جھوٹ، دھوکہ، فراڈ اور ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے جیسی غیر اخلاقی حرکات کیوں؟ سیرت النبی پر عمل کرنے اور درج بالا سماجی برائیوں کے خاتمے میں کون سے عوامل رکاوٹیں ہیں؟ اخلاقی گراوٹ کی اصل وجہ کیا ہے؟
ایوان اقتدار کی مسند پر براجمان صاحب اقتدار اور علمائے کرام سمیت ہر طبقہ فکر کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ آنے والی نسلوں کے لیے اس وطن کو امن کا گہوارہ بنایا جائے۔ اللہ نے ہر چیز دے رکھی ہے جو سب کے لیے کافی ہے، صرف دولت کی غلط تقسیم اور لوٹ مار نے قوم کو اصل منزل سے دور کر رکھا یے۔
اس ماہ رمضان کی با برکت 23 مارچ کو اپنی بھٹکی ہوئی راہ کو دوبارہ متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ انصاف صرف جج نہیں کرتا بلکہ سیٹ پر بیٹھا ہر شخص جج ہے، چاہیے وہ کلرک، پٹواری، یا سیکریٹری ہو یا سپاہی سے لے کر آئی جی تک سب کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے اور اپنے حصے کا کام انصاف سے کرنا چاہیے۔ نماز روزہ، حج، عمرہ اور زکوت آپ کے ذاتی افعال ہیں اور آپ کی شخصیت سے بھی ان عمال کو ظاہر ہونا چاہیے۔ بطور مسلمان اور پاکستانی ہر سطح پر سچائی، دیانتداری اور انصاف کی فراہمی اپ کی پہنچان ہونی چاہیے اور عوام کے راستے سے رکاوٹیں دور کرنے کا نام انسانیت اور پاکستانیت ہے۔ تمام قوانییں عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے ہوتے ہیں، غلط استعمال کر کے لوٹ مار کے لیے نہیں ہوتے۔
اورسیز پاکستانیوں کو بھی انھی اصولوں پر کار بند رہ کر دنیا بھر میں قومی سفیر بن کر اپنی زمہ داری پوری کرنی چاہیے اور دیار غیر میں ہر شعبہ میں سچائی اور دیانتداری سے اپنا کام کرنا چاہیے تا کہ کسی بھی غلط قدم سے مادر وطن اور آباؤاجداد کی عزت پر کوئی حرف نہ آنے پائے