اسپین کی جانب سے جہادیت سے متعلق جرائم کے باعث ملک بدر کیے جانے والوں رہورٹ جاری،پاکستانی بھی شامل

2024 میں میموریل سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق اسپین میں پولیس کارروائیوں کے دوران گرفتار ہونے والے 81 افراد میں سے 37 فیصد (یعنی 30 افراد) ہسپانوی تھے، جب کہ اس کے بعد مراکشی باشندے تھے جن کی تعداد 26 تھی، جو کل کا تقریباً ایک تہائی بنتے ہیں۔
2024 میں اسپین سے جلاوطن کیے گئے افراد میں ارتزائنزا کا ایک الجزائری مخبر اور 17-اے حملے میں سزا یافتہ شخص شامل
مراکش کے شہری 2016 سے اب تک ہونے والی گرفتاریوں کا 41 فیصد بنتے ہیں، جبکہ پچھلے سال 15 نابالغ بھی گرفتار کیے گئے۔
میڈرڈ، 2 اگست (دوست نیوز) 2024میں اسپین کی جانب سے جہادیت سے متعلق جرائم کے باعث ملک بدر کیے جانے والوں میں ایک الجزائری شہری بھی شامل ہے جو ارتزائنزا (باسک پولیس) کا مخبر تھا، اور ایک ایسا شخص بھی جو 17 اگست 2017 کو کاتالونیا (بارسلونا اور کامبریلس) میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں ملوث ریپول سیل کا سزا یافتہ رکن تھا۔
“اسپین میں دہشت گردی کا 2024 کا جائزہ” نامی رپورٹ، جو کہ مرکزی یادگاری مرکز برائے دہشت گردی کے متاثرین کی جانب سے مرتب کی گئی ہے اور جسے یورپ پریس نے حاصل کیا، اس میں ان غیر ملکی شہریوں کی ملک بدری کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جنہیں قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا گیا۔
رپورٹ کے مطابق اپریل میں ایک الجزائری شہری، جو وتوریا میں رہائش پذیر اور ارتزائنزا کا مخبر تھا، کو ملک بدر کیا گیا۔اس شخص کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ اسے 2018 میں پولیس نے گرفتار کیا تھا اور نیشنل کورٹ نے اسے سزا دی، لیکن بعد میں سپریم کورٹ نے اسے بری کر دیا کیونکہ باسک پولیس کی طرف سے اس کے حق میں رپورٹس موجود تھیں۔
اسی ماہ (اپریل) میں سعید بن عزہ کو بھی اسپین سے نکالا گیا، جو 17 اگست 2017 کے بارسلونا اور کامبریلس حملوں سے متعلق مقدمے میں تین سزا یافتہ افراد میں شامل تھا۔ بن عزہ نے ریپول کے جہادی سیل کے ارکان کو گاڑی اور دستاویزات فراہم کی تھیں۔
رپورٹ کا آغاز فروری میں ہونے والی ایک اور ملک بدری سے ہوتا ہے، جب اسپین کی حکومت نے سعید لچھاد نامی مراکشی شہری کو ملک بدر کیا۔ وہ سات سال قید کی سزا مکمل کر چکا تھا۔“لچھاد نے شام میں القاعدہ کی ذیلی تنظیم اور دولت اسلامیہ (داعش) کے ساتھ لڑائی میں حصہ لیا تھا، اور واپسی پر وہ اسپین میں دہشت گردوں کی بھرتی کے کام میں ملوث تھا”
18 مارچ کو پولیس نے سرقسطہ (زاراگوسا) میں نوح میدیونی نامی الجزائری شہری کو گرفتار کیا، جو کچھ ہفتے قبل ہی القاعدہ سے تعلق کی سزا مکمل کرنے کے بعد رہا ہوا تھا۔“اسے المریہ منتقل کر کے بحری راستے سے اس کے آبائی ملک واپس بھیج دیا گیا”
جون میں ایک اور مراکشی شہری محمد حراک کو ملک بدر کیا گیا، جو 2016 میں مالورکا میں جہادیت سے تعلق کے الزام میں گرفتار ہوا تھا۔ اگرچہ وہ بعد میں بری ہو گیا، اس نے دعویٰ کیا کہ وہ ہسپانوی خفیہ ادارے CNI کے لیے کام کر رہا تھا۔ اس کی ملک بدری کا فیصلہ نیشنل کورٹ نے منظور کیا۔
اگست میں، نیشنل پولیس نے بارسلونا کے قصبے “جلیدا” کے ایک باشندے کو ملک بدر کر دیا، جس پر “قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ” ہونے کا الزام تھا۔ گرفتار شخص کے بارے میں شبہ ہے کہ اس کے تعلقات شدت پسند تنظیموں (یعنی جہادی ازم) سے تھے، وہ پرتشدد رویہ اختیار کرتا تھا اور خواتین و ہم جنس پرستوں کے خلاف شدید نفرت آمیز حرکات میں ملوث رہا۔بالآخر، ستمبر میں نیشنل پولیس نے تاراگونا سے 13 جرائم پیشہ افراد کو ملک بدر کر دیا، جن میں سے ایک فرد دہشت گرد گروہ کے ساتھ تعاون کرنے کے جرم میں سزا کاٹ چکا تھا۔
گرفتار افراد اور ان کی شہریت کی تفصیل
یورپ پریس کی جانب سے حاصل کردہ 2024 کے “مرکز میموریل” کی رپورٹ میں اسپین میں انسدادِ دہشت گردی کے سلسلے میں کی گئی پولیس کارروائیوں کے نتیجے میں گرفتار افراد کا جائزہ بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق مسلسل تیسرے سال سب سے زیادہ گرفتاریاں ہسپانوی شہریوں کی ہوئیں، جن کے بعد مراکشی شہریوں کی تعداد تھی۔
اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر 30 افراد، یعنی گرفتار شدگان کا 37 فیصد، ہسپانوی شہری تھے۔ ان کے بعد مراکشی شہریوں کی تعداد 26 رہی۔ ان دونوں کے بعد الجزائر، شام اور لبنان سے تعلق رکھنے والے تین تین افراد، پاکستان اور فلسطین سے دو دو افراد جبکہ چیچنیا، اردن، یمن، تاجکستان اور میکسیکو سے ایک ایک فرد گرفتار ہوا۔ 8.64 فیصد افراد کی قومیت ظاہر نہیں کی گئی۔
مرکز میموریل نے 2016 سے اب تک کی گرفتاریوں کی ترتیب کا بھی تجزیہ کیا ہے: مجموعی طور پر سب سے زیادہ گرفتاریاں مراکشی باشندوں کی ہوئیں (41 فیصد سے زائد)، اس کے بعد ہسپانوی شہری (تقریباً 34 فیصد)، الجزائر اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد نمایاں رہے۔
رپورٹ کے مطابق 37 فیصد گرفتار افراد کا تعلق جہادی تشدد کی تشہیر یا اس کی تائید کرنے سے تھا، جبکہ 22.2 فیصد ایسے افراد تھے جو ممکنہ دہشت گرد حملے کی تیاریوں میں ملوث تھے۔
12.3 فیصد افراد دہشت گردوں کی بھرتی میں سرگرم تھے، جبکہ صرف 1.2 فیصد افراد پر دہشت گرد گروہوں کو مالی معاونت فراہم کرنے کا الزام تھا۔ باقی 27.16 فیصد کو یا تو “دیگر” کے زمرے میں رکھا گیا ہے یا ان کے خلاف الزامات واضح نہیں کیے گئے۔
رپورٹ کا ایک اہم نکتہ کم عمر افراد کی بڑھتی ہوئی شمولیت ہے۔ سال 2024 میں 15 نابالغوں کو جہاد سے متعلق جرائم کے الزام میں گرفتار کیا گیا، جو کہ گزشتہ سات سالوں میں گرفتار ہونے والے تمام کم عمر افراد کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر، سیویل کے علاقے مونتیانو میں ایک 17 سالہ نوجوان کو گرفتار کیا گیا جو “موت کی ماں” کہلانے والے کیمیکل TAPT (ٹریآیسٹون ٹرائی پر آکسائیڈ) سے بم بنانے کی مشق کر رہا تھا۔
2024 میں گرفتار ہونے والوں میں آٹھ خواتین بھی شامل تھیں، جو کہ گزشتہ سال کی تعداد کے برابر ہے۔ 2015 سے اب تک گرفتار ہونے والی خواتین کی مجموعی تعداد 52 ہو چکی ہے، جو کہ کل گرفتاریوں کا 8.84 فیصد بنتی ہے۔