اسپین کی انا الکالدی، غزہ جانے والی “فریڈم فلوٹیلا” کی سرگرم کارکن اور سوشل میڈیا انچارج کون ہے؟

Screenshot

Screenshot

بارسلونا(دوست نیوز)غزہ کی جانب روانہ ہونے والی “فریڈم فلوٹیلا” (Global Sumud Flotilla) میں شامل اسپین کی سماجی کارکن انا الکالدی نے حالیہ دنوں میں خاصی شہرت حاصل کی ہے۔ وہ نہ صرف سرگرم رکن ہیں بلکہ فلوٹیلا کی سوشل میڈیا ٹیم کی ذمہ داری بھی سنبھالتی ہیں، تاکہ دنیا بھر میں مشن کی سرگرمیوں اور حقائق کو پہنچایا جا سکے۔

یہ مشن بیس کشتیوں اور تقریباً 500 رضاکاروں پر مشتمل ہے، جس کا مقصد غزہ اور اسرائیل کے درمیان ایک سمندری انسانی راہداری قائم کرنا اور بحران زدہ آبادی کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔ اس فلیٹ میں معروف عالمی شخصیات جیسے گریٹا تھنبرگ اور آدا کولاو بھی شریک ہیں۔

Screenshot

حالیہ ہفتوں میں فلوٹیلا کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جن میں تیونس میں ڈرون حملے بھی شامل ہیں جن سے دو کشتیوں کو نقصان پہنچا، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

انا الکالدی کا تعلق اسپین کے شہر غرناطہ سے ہے۔ وہ 23 برس قبل اسلام قبول کر کے حنان کہلائیں۔ ان کے چھ بچے ہیں اور وہ ٹک ٹاک سمیت مختلف پلیٹ فارمز پر انسانی حقوق، نسائیت اور سماجی انصاف پر مبنی مواد شیئر کرتی ہیں۔ 2000 میں حجاب پہننے کے بعد انہیں معاشی اور سماجی سطح پر امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن بعد ازاں وہ خواتین کے حقوق اور “بین الثقافتی نسائیت” کی مضبوط آواز بن گئیں۔

انہوں نے میڈرڈ کی کمپلوتنس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، سوشیالوجی اور امیگریشن پالیسی میں مہارت کے ساتھ مختلف تحقیقی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔ پیشے کے اعتبار سے وہ غرناطہ کے ایک ہسپتال میں ذہنی صحت کی ٹیم کے ساتھ بطور سماجی کارکن خدمات انجام دے رہی ہیں۔

انہیں ٹک ٹاک پر اپنے خاندان کے ساتھ بنائے گئے ویڈیوز کے ذریعے مقبولیت ملی۔ تاہم فلوٹیلا میں شمولیت کے بعد وہ سوشل میڈیا پر جھوٹے پروپیگنڈے کا نشانہ بھی بنی ہیں۔ ایک ویڈیو میں انہیں بارسلونا میں فلوٹیلا کی رخصتی کے موقع پر رقص کرتے دکھایا گیا، جسے غلط انداز میں “ایبیزا کی پارٹی” قرار دے کر پھیلایا گیا۔ بعد میں اسپین کے سرکاری ادارے Verifica RTVE نے ان افواہوں کی تردید کردی۔

الکالدی نے وضاحت دی کہ وہ اپنے بچوں کے لیے خوشی کا پیغام دینا چاہتی تھیں تاکہ انہیں فکر نہ ہو: “میں غزہ جانے کے لیے امید کے ساتھ روانہ ہوئی ہوں، کیا مجھے روتے ہوئے جانا چاہیے تھا؟”

فلوٹیلا میں شامل ہر فرد کو ایک ذمے داری دی گئی ہے، اور انا الکالدی کی ڈیوٹی سوشل میڈیا پر معلومات کی ترسیل ہے۔ ان کا کہنا ہے: “ہم جانتے ہیں کہ ہماری جان کو خطرہ ہے، کیونکہ ہمارے حقوق کا احترام نہیں کیا جاتا، لیکن ہمارے ساتھ عوامی حمایت ہے۔ اصل دکھ یہ ہے کہ ان حملوں سے دنیا کی توجہ غزہ میں جاری نسل کشی اور بچوں کی بھوک و موت سے ہٹ جاتی ہے۔”

یہ فلوٹیلا دوسری بار اس موسمِ گرما میں غزہ کے لیے روانہ ہوئی ہے، تاہم ایک بار پھر اسرائیلی دباؤ اور حملوں کے باعث عالمی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے