میڈرڈ کی علاقائی حکومت نے میڈرڈ کے اسکولوں میں فلسطینی پرچم اور غزہ سے اظہارِ یکجہتی پر پابندی عائد کردی

میڈرڈ (17 ستمبر 2025ء) — میڈرڈ کی علاقائی حکومت نے دارالحکومت کے تعلیمی اداروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ غزہ سے اظہارِ یکجہتی یا فلسطینی پرچم کی نمائش سے اجتناب کریں۔ یہ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں گزشتہ دو برسوں سے بھی کم عرصے میں تقریباً 65 ہزار فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ ہفتے سے مختلف اسکولوں کو محکمہ تعلیم کے انسپکٹرز کی جانب سے زبانی طور پر یہ احکامات مل رہے ہیں کہ غزہ سے وابستہ کسی بھی قسم کی علامت یا سرگرمی کو ختم کیا جائے۔ یہ اقدام، جسے بہت سے اساتذہ اور سماجی حلقے ’’آزادیِ تدریس اور ادارہ جاتی خودمختاری کی خلاف ورزی‘‘ قرار دے رہے ہیں، قانونی چارہ جوئی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ 2022ء میں روسی حملے کے بعد یوکرین کے حق میں اسی حکومت نے یکجہتی کی اجازت دی تھی بلکہ اسے فروغ بھی دیا تھا۔ اُس وقت وزیرِاعلیٰ آیوسو نے اعلان کیا تھا کہ “یوکرین کو ہماری ضرورت ہے” اور بعد ازاں 1,580 اسکولوں میں خوراک و ضروریاتِ زندگی اکٹھی کرنے کی مہم چلائی گئی۔ بچوں کو یوکرین کی حمایت میں تصویریں بنانے اور پیغامات لکھنے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔
ریٹائرڈ استاد کارلوس دیئز ہرناندو نے ’’دوہرا معیار‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں میں ماضی میں مختلف جنگوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف سرگرمیاں کرائی جاتی رہی ہیں جنہیں کبھی روکا نہیں گیا۔ ان کے بقول ’’فلسطین میں جاری قتلِ عام کو خود اقوامِ متحدہ نسل کشی قرار دے چکی ہے، اور وہ اساتذہ جو اس پر بات کرتے ہیں، دراصل قانون کی پاسداری کر رہے ہیں۔‘‘
دوسری جانب محکمہ تعلیم نے وضاحت کی ہے کہ کوئی عمومی ہدایت نامہ جاری نہیں کیا گیا۔ ترجمان کے مطابق، ’’صرف اس وقت یاددہانی کرائی جاتی ہے جب کسی اسکول میں ایسی سرگرمی ہو جس کا تعلق براہِ راست کسی سیاسی معاملے سے ہو، کیونکہ ادارے غیرسیاسی ہونے چاہئیں۔‘‘
کمیونٹی حکومت کے ترجمان میگوئل آنخیل گارسیا مارتین نے بھی کہا کہ ’’اسکول سیاست کے لیے نہیں، بلکہ تعلیم کے لیے ہیں۔‘‘ انہوں نے بائیں بازو پر الزام عائد کیا کہ وہ اس معاملے کو ’’سماجی انجینئرنگ کی تجربہ گاہ‘‘ بنانا چاہتا ہے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں اندلس کی حکومت نے بھی ایک اسکول کی عمارت پر لگی فلسطینی اور یوکرینی پرچم کو ہٹانے کا حکم دیا تھا، جس کے لیے 2020ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا، جس کے تحت سرکاری عمارتوں پر غیر سرکاری پرچم لہرانے کی ممانعت ہے۔
ادھر، اساتذہ کا اتحاد ’’ماریا فلسطینا: تعلیم نسل کشی کے خلاف‘‘ نے اس اقدام کے خلاف پارلیمان میں شکایت درج کرائی ہے اور کہا ہے کہ وہ قانونی کارروائی کریں گے۔ فیڈریشن آف پیرنٹس ایسوسی ایشنز ’’خنیر دے لوس ریوس‘‘ نے بھی اس پابندی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جب 30 فیصد مقتولین بچے ہوں، تو خاموش رہنا ظلم ہے۔ 20 ہزار سے زائد فلسطینی بچے اپنی زندگی کھو چکے ہیں، اور ہم بطورِ معاشرہ اسے برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘