جبری شادیاں اور خواتین کی جسمانی قطع و برید کے واقعات میں اضافہ نہیں، آگاہی میں اضافہ ہوا ہے

بارسلونا(دوست مانیٹرنگ ڈیسک)اسپین میں دائیں بازو کی جماعت ووکس (Vox) گزشتہ چند برسوں سے یہ تاثر دے رہی ہے کہ ملک میں غیر ملکیوں کی آمد کے باعث خواتین کی جسمانی قطع و برید (Female Genital Mutilation) اور جبری شادیوں کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جماعت کے رہنما خاص طور پر کاتالونیا کو ان جرائم کے “مرکز” کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ حال ہی میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل، خوسے ماریا فیگاریدو نے دعویٰ کیا کہ یہ جرائم “اب سامنے آرہے ہیں” اور “اس سے پہلے کبھی موجود نہیں تھے”۔
تاہم ماہرین اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ اسپین میں خواتین کی جسمانی قطع و برید کو 2003 میں اور جبری شادیوں کو 2015 میں فوجداری جرم قرار دیا جا چکا تھا۔ ان دونوں جرائم کا تعلق کچھ افریقی، مشرقِ وسطیٰ، ایشیائی اور لاطینی امریکی برادریوں سے جوڑا جاتا ہے جہاں یہ روایات تاریخی طور پر موجود رہی ہیں۔ لیکن اسپین میں ان کے واقعات نئے نہیں ہیں۔ ماہرین کے مطابق 1990 کی دہائی میں بھی ایسے کیس ریکارڈ کیے گئے تھے۔
حالیہ برسوں میں ان ممالک میں بھی ان واقعات کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے، اور اسپین میں اضافے کے کوئی شواہد موجود نہیں۔ وزارتِ داخلہ ان جرائم کے منظم اعداد و شمار جاری نہیں کرتی، تاہم کاتالونیا میں موسوس دی اسکوادرا کے مطابق 2018 سے اب تک سالانہ کیسز کی تعداد 13 سے زیادہ نہیں رہی۔
ماہر بشریات ادریانا کپلان، جو اسپین میں اس موضوع پر سب سے نمایاں محقق سمجھی جاتی ہیں، کہتی ہیں کہ “کیسز کم ہو رہے ہیں کیونکہ اب آگاہی بڑھ گئی ہے۔ والدین اپنی بیٹیوں کو وطن واپس بھیجنے سے گریز کرتے ہیں تاکہ ان کے پاسپورٹ ضبط نہ کیے جائیں۔” ان کے مطابق صحت، سماجی بہبود اور تعلیم کے شعبوں میں تربیت یافتہ عملہ اس روک تھام میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
جبری شادیوں کے حوالے سے بھی اعداد و شمار محدود ہیں۔ اگرچہ کاتالونیا میں 2008 سے ان واقعات کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے، لیکن ماہرین کے مطابق ان میں بھی کوئی نمایاں اضافہ نہیں ہوا۔
یونیورسیتات آتونومہ دے بارسلونا کی ماہرِ سماجیات سونیا پاریا کے مطابق رپورٹ ہونے والے کیسز “برف کے تودے کی صرف نوک” ہیں۔ ان کے مطابق بہت سی متاثرہ لڑکیاں اپنے ہی خاندان کے خلاف کارروائی کرنے سے ہچکچاتی ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں انہیں تنہائی اور انتقام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ مخصوص نوعیت کے جرائم ہیں جن کے لیے خاص حکمتِ عملی اور تربیت یافتہ عملہ درکار ہے۔ فی الحال صرف کاتالونیا اور ناوارا میں اس مقصد کے لیے خصوصی پروٹوکول موجود ہیں، جب کہ دیگر صوبے انہیں عمومی گھریلو یا صنفی تشدد کے دائرے میں دیکھتے ہیں، جس سے مؤثر روک تھام مشکل ہو جاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مستقبل میں ان جرائم کی رپورٹنگ بڑھتی ہے تو یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہوگا کہ واقعات بڑھ گئے ہیں، بلکہ یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ متاثرہ خواتین کو انصاف اور تحفظ تک رسائی آسان ہو گئی ہے۔