اسپین میں تارکینِ وطن سے منسلک جرائم پر بحث، سیاست دانوں پر بھی تنقید

IMG_2384

میڈرڈ (دوست مانیٹرنگ ڈیسک) اسپین میں حالیہ دنوں مختلف شہروں میں پیش آنے والے جرائم کی ایک طویل فہرست سامنے آئی ہے جن میں متعدد غیر ملکی نژاد افراد کے ملوث ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ان واقعات کے بعد ملک میں تارکینِ وطن کی پالیسیوں اور ان کے سماجی کردار پر ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔

رپورٹس کے مطابق 5 سے 17 اکتوبر کے درمیان مختلف علاقوں میں متعدد واقعات پیش آئے جن میں مراکشی، الجزائری، کولمبیائی اور بولیوین شہریوں سمیت کئی غیر ملکی افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان پر الزامات میں زیادتی، قتل، ڈکیتی، اور پرتشدد حملے شامل ہیں۔

ان ہی دنوں میں درج مقدمات کے مطابق:

  • بارسلونا، مالاگا، پامپلونا، اور ویلنشیا سمیت کئی شہروں میں کم سن بچیوں سے زیادتی اور تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
  • جرونا میں ایک مراکشی شہری نے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا، جب کہ بارسلونا میں ایک مراکشی شخص پر خاتون سے زبردستی مکان خالی کرانے کا الزام لگا۔
  • میڈرڈ میں ایک بولیوین شہری کو اپنی آٹھ سالہ بیٹی سے زیادتی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

ان واقعات کے پس منظر میں سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں سخت ردِعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ کچھ حلقوں نے کہا ہے کہ صرف غیر ملکی ہی نہیں بلکہ وہ اسپینی سیاست دان بھی ذمہ دار ہیں جو ان افراد کو ملک میں لاتے اور انہیں نکالنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق یہ رویہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مفادات کی بنیاد پر جاری ہے۔

دائیں بازو کی جماعت ووکس (VOX) نے ان واقعات کے بعد سخت اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ جماعت کا مؤقف ہے کہ:

  • تمام غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کیا جائے،
  • وہ قانونی تارکینِ وطن جو جرم کریں یا مذہب مسلط کرنے کی کوشش کریں، انہیں بھی بے دخل کیا جائے،
  • اور وہ افراد جو سماجی امداد پر زندگی گزار رہے ہیں، انہیں دوبارہ اپنے وطن واپس بھیجا جائے۔

اس بحث نے اسپین میں امیگریشن پالیسی، سماجی ہم آہنگی، اور عوامی تحفظ کے حوالے سے ایک بار پھر سیاسی اور عوامی سطح پر تقسیم کو نمایاں کر دیا ہے۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے