ایس پی اسلام آباد عدیل اکبر کو کس نے مارا!!تحریر۔۔عارف انیس

IMG_2786

قید کرتا ہوں حسرتیں دل میں،

پھر انہیں خودکشی سکھاتا ہوں!!!

یہ سطریں، آج اسلام آباد میں اپنی جان لینے والے ایس پی عدیل اکبر نے اپنے سوشل میڈیا پر اپریل میں لکھی تھیں. .

خزاں کی اُس رات ، سرِبالاخیال کا ہما پھڑپھڑایا ،

زبان نے لفظ کا ذائقہ چکھنا چاہا تو دانتوں نے اسے روک لیا،

پیٹ کو بھوک لگی ہے ، دانتوں کو کھانا چبانا ہے،

اور گونگے خیال کا ہما بھر اڑان جا بیٹھا اک شجرِبیمار پر ؛

آنکھیں موند، غرق ایک عارضی اونگھ میں،

منتظرِآمدِتمازتِ بہاراں۔ 

یہ اوپر والی نظم ایس ایس پی ابرار نیکوکارہ مرحوم نے اپنے آپ کو مارنے سے پہلے، خود لکھی تھی جو ایک حساس دل کی عکاسی کرتی ہے. سوال یہ ہے کہ ایک ذہین شخص جو سی ایس ایس کا امتحان پاس کرجائے، بقول شخصے ڈی پی او کے طور پر ضلع کا مالک رہے، پستول بردار وردی پہنتا ہو اور شہر بھر میں اس کا ٹہکا ہو، وہ اپنی جان کیسے لے سکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ ڈپریشن کا مرض شاہ اور گدا کا فرق نہیں دیکھتا، بلکہ وہ شاہ کو زیادہ نشانہ بناتا ہے. ڈپریشن ایک ایسا ظالم مرض ہے کہ ایک جگہ کچھ بچوں کا غریب باپ، ان کے کپڑوں کے تقاضوں کی وجہ سے خودکشی کرلیتا ہے تو دوسری جگہ اپنی جان لینے والا بظاہر پاکستان کے طاقتور ترین طبقے سے تعلق رکھتا ہے.

انسان خودکشی کیوں کرتا ہے، ابرار نیکوکار کے اپنے آخری نوٹ میں لکھے الفاظ کچھ یوں ہیں ” انسان خود کشی اس لیے کرتا ہے جب وہ بیزار ہو جاتا ہے اور اسکو تخلیق کی سمجھ آ جاتی ہے جب ایک سمجھدار بندہ اپنی جان لیتا ہے تو اسکی موت پر رویا نہیں کرتے، بلکہ اسکے فیصلے کا احترام کرتے ہوتے ہیں”. ہو سکتا ہے بعض لوگوں کو ان الفاظ میں کچھ رومانیت دکھائی دے، تاہم بہت سے لکھنے پڑھنے والوں نے خودکشی کرتے وقت اس سے ملتے جلتے نوٹ چھوڑے ہیں. تاہم نفسیاتی تجزیے کے اعتبار سے یہ نوٹ بیزاری اور اکیلے پن کی کیفیت کی عکاسی ہے جو کہ ڈپریشن کی بڑی وجوہات میں سے ہیں. 


گزشتہ پندرہ برس میں جہانزیب کاکڑ، ابرار نیکوکار، عدیل اکبر، نبیحہ چوہدری، شہزاد وحید، اشعر حمید، سہیل احمد ٹیپو،  بلال پاشا، اور کئی افسران، ڈپریشن کے ہاتھوں اپنی جان سے گزر چکے ہیں. یاد رہے کہ خودکشی کرنے والے افسران کی غالب تعداد کا تعلق پاکستان پولیس سروس سے ہے جو اس جاب کے نفسیاتی چیلنجز کی طرف اشارہ کرتا ہے.

 آج سے چند برس پہلے جب میرے بیچ میٹ اور دوست سہیل ٹیپو، ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ نے خودکشی کی تو میں نے کالموں کی سیریز لکھی تھی، "سہیل ٹیپو کو کس نے مارا "؟ وجوہات میں تو بہت کچھ نظر آتا ہے. نیکوکارہ کے حوالے سے گھریلو مناقشے کا ذکر کیا گیا ہے. ٹیپو مرحوم بھی کچھ ملی جلی کیفیت میں تھا. پچھلے دس برس میں مجھے آٹھ سے دس سینئر سول سرونٹس یاد آرہے ہیں جنہوں نے اپنی جان اپنے ہاتھوں لی. اللہ کریم ان کی لغزشوں سے درگزر کرے اور جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے. 

ڈپریشن کے حوالے سے ہمیں بطور سوسائٹی بہت سیکھنے کی ضرورت ہے. وجوہات ان گنت ہوسکتی ہیں، ڈپریشن موروثی بھی ہوسکتا ہے، حادثاتی بھی اور ماحولیاتی بھی. ٹیپو اور نیکوکارہ دونوں کے حوالے سے ایسے بہت سے جملے سننے کو ملے کہ ‘وہ تو بہت بہادر تھا’ اور ‘اتنے بڑے عہدے پر بندے کو کیا مسئلہ ہوسکتا ہے’. چالیس ایکڑ کی کوٹھی میں رہنے والا کتنا اکیلا ہوسکتا ہے اور یہ تاج کہاں اور کس طرح چبھتا ہے، یہ پہننے والا ہی جان سکتا ہے. بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایک سول سرونٹ کس طرح تنی ہوئی تار پر چلتا ہے اور جب وہ گرتا ہے تو اپنے ساتھ خاندان کو بھی لے ڈوبتا ہے.

ہمارے ہاں ایک عمومی روایت ڈپریشن کو روحانیت کے ساتھ غلط ملط کرنے کی ہے. یہ ایسے ہی ہے کہ آپ کینسر، یا شوگر یا دل کی بیماری کو روحانیت کے ساتھ مکس کرلیں کہ فلاں بندہ گنہگار ہے اس لیے اسے ہارٹ اٹیک ہوگیا ہے. ڈیپرہشن ایک پیچیدہ بیماری ہے، جس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں اور اس کا نفسیاتی اور اعصابی علاج بھی ایک پیچیدہ مرحلہ ہے. 

ابھی تو کسی ڈپٹی کمشنر، کسی ایس پی، کسی کلکٹر کی خود کو مارنے کی خبر پھر بھی لوگوں کو متوجہ کرلیتی ہے، تاہم وطن عزیز میں عام انسانی جان ارزاں ہے، یہ نظام کلرکوں، کانسٹیبلوں وغیرہ کو تو ویسے کسی شمار قطار میں نہیں رکھتا. ورنہ سرکاری نظام کے ہاتھوں سالانہ خودکشی کرنے والوں کی تعداد سینکڑوں سے ہزاروں میں ہے. 

گزشتہ برسوں میں تجویز کیا تھا کہ سول سروس کے لئے ایک ہیلپ لائن سیٹ اپ کی جائے جہاں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ڈپریشن کے مرض کی تشخیص اور علاج ہوسکے. پولیس میں یہ ضرورت کہیں زیادہ ہے. عام طور پر پاکستان میں ڈپریشن کو ‘زنانہ’ مرض سمجھا جاتا ہے جو سورماؤں کو لاحق نہیں ہوسکتا. تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستانی آبادی کے ہر چار میں سے ایک فرد کو کلینکل ڈپریشن کے علاج کی ضرورت ہے.

نفسیات کے شعبے میں بیس سال گزارنے کی وجہ سے، اس حوالے سے ایک کیمپین چلانی چاہی، تاکہ سول سروس میں ڈپریشن کے حوالے سے حجابات اٹھ سکیں اور ہر سال دو سال بعد قیمتی جانوں کا ضیاع روکا جاسکے اور علاج موت سے پہلے مل سکے.   سول سروس ہی نہیں، خودکشی سے بچاؤ کی ہاٹ لائن تک عوام تک ایسی سہولت کی رسائی ہونی چاہیے. آئی جی پنجاب اور اسلام آباد سے اس حوالے سے بات بھی ہوئی، زبردست تجویز ہے، کہ کر سراہا بھی گیا مگر کوئی عملی اقدامات نہیں لیے گئے کہ ہر شارک صفت بڑا عہدے دار اپنے گبند ذات کے حصار میں ہے اور ایسی ہی خودکشیوں کی وجوہات میں سے ایک ہے. سول سروس سے تعلق رکھنے والے احباب سے اس سلسلے میں مشورے اور توجہ کی درخواست ہے کہ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے، یہ کام سول سرونٹس کو خود کرنا ہے، سیاست دانوں کو نہیں،، ڈپریشن ایک مرض ہے جو کسی کو بھی ہوسکتا ہے اور جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے. .

عدیل اکبر اور ان کے اہل خانہ کے لیے دعائیں!

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے