بارسلونا کا قدیم ترین لگژری ہوٹل اب الجزائری ریاست کی ملکیت،ہوٹل بزنس مین علی حداد کی ملکیت تھا جو بدعنوانی سے خریدا گیا تھا
Screenshot
بارسلونا کا مشہور و معروف ہوٹل ال پیلس (سابقہ رِٹز)، جو شہر کا سب سے پرانا لگژری ہوٹل سمجھا جاتا ہے، اب الجزائر کی حکومت کی ملکیت بن چکا ہے۔ یہ ہوٹل الجزائر کے نیشنل انویسٹمنٹ فنڈ (FNI) کو 1 اگست 2025 کو “ادائیگی کے بدلے ملکیت کی منتقلی” کے طریقۂ کار (دَیسیون اِن پاغو) کے تحت منتقل کیا گیا۔ یہ فنڈ براہ راست الجزائر کے وزیراعظم کے ماتحت ایک سرکاری مالیاتی ادارہ ہے۔
ہوٹل کی عمارت، جو گران ویا دے لاس کورت کیتالانس (نمبر 664-668) پر واقع ہے، 2011 سے الجزائری بزنس مین علی حداد کی ملکیت تھی۔ علی حداد اس وقت الجزائر میں بدعنوانی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور سرکاری فنڈز میں خوردبرد کے مقدمات میں قید ہیں۔ الجزائری عدالت نے اسپین سے ہوٹل کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا، کیونکہ ان کے بقول یہ غیر قانونی طور پر حاصل کیے گئے فنڈز سے خریدا گیا تھا۔
تاہم بظاہر الجزائر کو یہ جائیداد عدالتی فیصلے کے ذریعے نہیں بلکہ علی حداد سے براہِ راست معاہدے کے تحت ملی ہے۔ اسپین کے رجسٹری ریکارڈ کے مطابق یہ ایک “رضاکارانہ مالی تصفیہ” ہے، نہ کہ عدالت کے حکم سے ضبطی۔

علی حداد (عمر 60 سال) الجزائر کے سب سے بڑے نجی تعمیراتی ادارے ETRHB کے مالک تھے اور کئی بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے، جن میں اسپین کی FCC بھی شامل تھی۔ 2015 میں کچھ منصوبے ناکامی سے دوچار ہوئے، جس سے کمپنی کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
2019 میں حداد کو ملک سے فرار کی کوشش کے دوران تیونس کی سرحد پر گرفتار کیا گیا، چند گھنٹے قبل ہی فوج نے صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ کو 20 سال بعد اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔
موجودہ صدر عبدالمجید تبون نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اعلان کیا کہ ان کی حکومت پرانے دور کے ”مافیا نما کاروباری گروہ“ سے لوٹے گئے اثاثے واپس لانے کے لیے پرعزم ہے۔ بارسلونا کا “ال پیلس” ہوٹل ان اثاثوں میں سرِفہرست تھا۔
تبون نے 10 اکتوبر کو فوجی قیادت سے خطاب میں بتایا کہ الجزائر نے بیرونِ ملک سے 30 ارب ڈالر کے غیر قانونی اثاثے واپس حاصل کر لیے ہیں، اور اشارہ دیا کہ ان میں اسپین میں ایک پانچ ستارہ ہوٹل بھی شامل ہے، جسے “غیر قانونی طور پر خریدا گیا” تھا۔
علی حداد نے دسمبر 2011 میں یہ ہوٹل بارسلونا کے سابق فٹبال کلب صدر جوآن گاسپارت کے گروپ ہوسا (Husa) سے تقریباً 80 ملین یورو میں خریدا تھا۔ الجزائر میں اپنے مقدمے کے دوران انہوں نے کہا کہ انہوں نے اصل میں 54 ملین یورو ادا کیے، جبکہ باقی رقم بینک قرضوں اور ذاتی ادھار سے حاصل کی۔
اسپین میں درج ریکارڈ کے مطابق 2011 میں بینکو سینتاندیر سے 26 ملین یورو کا قرض لیا گیا، اور 2020 میں ادائیگی کی مدت یکم جنوری 2025 تک بڑھا دی گئی۔ اب الجزائر کا نیشنل انویسٹمنٹ فنڈ (FNI) باقی قرض کی ادائیگی کا ذمہ دار بن گیا ہے۔
اگرچہ منتقلی کا اندراج تاحال رجسٹری میں مکمل نہیں ہوا، لیکن قانونی طور پر ملکیت کی منتقلی دستخط کے وقت سے مؤثر ہو جاتی ہے، لہٰذا “ال پیلس” اب اگست 2025 سے الجزائری ریاست کی ملکیت شمار ہوتا ہے۔
حداد کی اسپین میں موجود کمپنی Aginyo Inversiones y Gestiones Inmobiliarias S.L. کے ذریعے ہوٹل خریدا گیا تھا، جس کی نمائندہ رادیا بوزیان علاوی (ایک الجزائری نژاد ہسپانوی شہری) ہیں۔ وہی خاتون Royal Blue Bird کمپنی کی منتظم بھی ہیں، جو 2014 سے ہوٹل چلا رہی ہے۔
الجزائر نے 2022 میں دس سے زائد ممالک، بشمول اسپین، کو خطوط بھیجے تھے تاکہ سابق صدر بوتفلیقہ کے قریبی سرمایہ داروں کے غیر ملکی اثاثے واپس کیے جا سکیں۔ سفارتی ذرائع کے مطابق اسپین میں یہ معاملہ باقاعدہ عدالتی کارروائی کے تحت جاری رہا، اور دونوں ممالک کے درمیان مغربی صحارا کے مسئلے پر پیدا ہونے والی کشیدگی کے باوجود اسے روکا نہیں گیا۔
گزشتہ ہفتے اسپین کے وزیرِ داخلہ فرناندو گرانده مارلاسکا نے الجزائر کا دورہ کیا، جو 2022 کی سفارتی کشیدگی کے بعد کسی ہسپانوی وزیر کا پہلا دورہ تھا۔ اسی دوران ایک الجزائری وفد نے میڈرڈ میں سیکیورٹی کمیشن کے اجلاس میں حصہ لیا، جہاں انہوں نے اپنے ملک کے “غیر قانونی طور پر حاصل شدہ اثاثوں” کی واپسی پر زور دیا، اگرچہ بارسلونا کے ہوٹل کا براہِ راست ذکر نہیں کیا گیا۔
صحافی فرید علیلات کے مطابق الجزائر کی حکومت نے 2022 میں ایک ثالث کے ذریعے علی حداد سے رابطہ کر کے بیرونِ ملک موجود ان کے اثاثوں پر تصفیے کی پیشکش کی تھی۔ حداد نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی، لیکن بعد میں رابطہ منقطع ہو گیا۔ تبون نے اپنی عوامی تقریروں میں واضح کیا کہ وہ “مافیا عناصر” سے کوئی سودا نہیں کرتے۔
یوں بظاہر یہ معاملہ ایک خاموش سمجھوتے کے نتیجے میں طے پایا ہے، جس کے تحت بارسلونا کا تاریخی “ال پیلس” اب سرکاری طور پر الجزائر کے نیشنل انویسٹمنٹ فنڈ کے زیرِ ملکیت ہے۔