نئی وبا ضرور آئے گی، دنیا نے اگر کووِڈ سے سیکھا، تو اس کا نقصان کم کیا جا سکتا ہے۔فرناندو سیمون کا انٹرویو 

Screenshot

Screenshot

اسپین کے معروف ماہرِ وبائیات فرناندو سیمون، جو کووِڈ-19 کے دوران حکومتی ترجمان کے طور پر نمایاں ہوئے، نے ایک تازہ گفتگو میں کہا ہے کہ دنیا کو ایک اور وبا کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا، لیکن اب ہمیں اس کے اثرات کو کووِڈ جیسا تباہ کن نہیں ہونے دینا چاہیے۔ انہوں نے یہ بات یونیورسٹی آف دی بیلیئرز (UIB) میں منعقدہ دسویں کانگریس برائے سائنسی ابلاغ میں کہی۔

سیمون نے کہا کہ کسی بھی بحران میں مؤثر ابلاغ کی سب سے بڑی شرط ایمانداری ہے۔ “سائنسی یا طبی ایمرجنسی کے دوران غلط یا مبہم معلومات عوام کے اعتماد کو توڑ دیتی ہیں، جس سے ایک ہنگامی صورتحال بحران میں بدل جاتی ہے۔”

ان کے مطابق، “اگر عوام کو یقین ہو کہ انہیں سچ بتایا جا رہا ہے، تو وہ تعاون کرتے ہیں۔ لیکن اگر شک پیدا ہو جائے تو بداعتمادی بحران کو بڑھا دیتی ہے۔”

انہوں نے اس خیال کو رد کیا کہ خوف سے بچنے کے لیے کچھ حقائق عوام سے پوشیدہ رکھے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صحیح معلومات دراصل خطرے کو کم کرتی ہیں کیونکہ وہ لوگوں کو درست فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

ان کے بقول، “ہم وہی بات بتاتے ہیں جو کسی ردِعمل کے لیے ضروری ہو۔ اگر کوئی تفصیل بعد میں پوچھی جاتی ہے تو ہم اسے دینے میں ہچکچاتے نہیں۔”

کووِڈ کے دنوں میں فرناندو سیمون اسپین میں روزانہ کی بریفنگز کا چہرہ بن گئے تھے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اس عرصے میں دن کے 16 سے 18 گھنٹے تک کام کرنا معمول تھا۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا میں سامنے آنا ان کے لیے ایک طرح سے “ذہنی وقفہ” تھا۔ تنقید اور طنز و مزاح پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “اگر عوام کو ہنسنے کی ضرورت تھی، تو میں برا نہیں مناتا”۔

ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ خود کو “قربانی کا بکرا” محسوس کرتے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا، “کئی ممالک میں ماہرین کو سیاسی یا عوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ میرے لیے یہ معمولی بات تھی۔ مقصد یہ نہیں تھا کہ فرناندو سیمون کی حفاظت ہو، بلکہ یہ کہ عوام محفوظ رہیں۔”

انہوں نے زور دیا کہ سائنس شک، تحقیق اور تبدیلی پر مبنی عمل ہے، جبکہ عوام اور میڈیا اکثر “یقینی جواب” چاہتے ہیں۔

ان کے مطابق، “سائنس ایمان نہیں مانگتی، سوالات اٹھاتی ہے۔ لیکن اسے سمجھانے میں وقت لگتا ہے، جو بحران کے دوران ہمارے پاس نہیں ہوتا۔”

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والا “سازشی یا انکاری مواد” زیادہ پرکشش لگتا ہے، لیکن اس کا حجم سائنسی تحقیق کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

فرناندو سیمون نے بتایا کہ اسپین کا ادارہ روزانہ درجنوں ممکنہ خطرات پر نظر رکھتا ہے۔ خاص طور پر وہ پرندوں میں پائے جانے والے وائرسز (avian influenza) کی نگرانی کر رہے ہیں جن کے انسانوں میں منتقل ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔

انہوں نے کہا، “ہم روزانہ 20 سے 40 خطرناک صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں، جن میں سے چند پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ اگر کسی خطرے کے بارے میں ٹھوس ثبوت ملتا ہے تو ہم فوراً اطلاع دیتے ہیں۔”

سیمون نے واضح الفاظ میں کہا کہ “تاریخ گواہ ہے کہ وبائیں بار بار آتی ہیں”۔

ان کے مطابق:“مسئلہ یہ نہیں کہ ایک اور وبا آئے گی یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم اسے کووِڈ جیسا نقصان دہ نہ بننے دیں۔”

انہوں نے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 1918 کی “ہسپانوی فلو” میں تقریباً 50 ملین افراد ہلاک ہوئے تھے، جبکہ کووِڈ میں یہ تعداد 7 ملین رہی، حالانکہ دنیا کی آبادی اس وقت سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔

ان کے مطابق، یہ فرق سائنسی ترقی اور بہتر طبی نظام کی وجہ سے ممکن ہوا، لیکن پھر بھی اسے ایک “عالمی المیہ” قرار دیا۔

اگر انہیں دوبارہ کسی وبا کے دوران ترجمان یا ماہر کی حیثیت سے عوام کے سامنے آنا پڑے، تو وہ تیار ہیں۔

انہوں نے کہا، “میں نے وباؤں سے نمٹنے کی تربیت حاصل کی ہے۔ دباؤ یا نفرت انگیزی کے باوجود، ہمیں عوام کو درست معلومات دینا نہیں چھوڑنی چاہئیں۔ اگر ہم خاموش رہیں تو گمراہ کن لوگ میدان سنبھال لیں گے۔”

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے