سوڈان کے الفاشر میں شہریوں کا قتل عام،گواہوں کا آنکھوں دیکھا حال
Screenshot
رپورٹ کے مطابق، سوڈان کے شہر الفاشر میں ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) نے 26 اکتوبر کو قبضہ کیا، جس کے دوران بڑی تعداد میں شہریوں کو ہلاک، زخمی اور اغوا کیا گیا۔ گواہوں نے بتایا کہ شہریوں پر مشین گنوں سے فائرنگ کی گئی، ٹرکوں سے کچلا گیا، گھروں میں گھس کر قتل کیا گیا اور ڈرون حملوں میں نشانہ بنایا گیا۔
ایک گواہ کے مطابق، “ایک ہی گلی میں پچاس یا ساٹھ افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔” بیشتر ہلاکتیں ان لوگوں کی ہوئیں جو شہر نہیں چھوڑ سکے، جیسے بوڑھے، زخمی یا معذور شہری۔

آر ایس ایف کے ایک ترجمان نے کہا کہ اگر کسی نے زیادتی کی ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی، لیکن فوج اور اس کے حامیوں نے واقعات کو مبالغہ آمیز انداز میں پیش کیا ہے۔
اقوام متحدہ نے بتایا کہ شہر اب بھی محصور ہے اور اندر موجود شہریوں پر قتل عام، جنسی تشدد اور نسلی بنیادوں پر حملے جاری ہونے کا خدشہ ہے۔
ییل یونیورسٹی کی ہیومنٹیرین ریسرچ لیب کی سیٹلائٹ تصاویر میں لاشوں کے انبار، زمین میں کھدائی کے نشانات (ممکنہ اجتماعی قبریں) اور بڑے ٹرکوں کی نقل و حرکت دیکھی گئی ہے، جو اموات اور لوٹ مار کی نشاندہی کرتی ہیں۔

آر ایس ایف نے کہا کہ وہ امریکہ اور عرب ممالک کی تجویز کردہ انسانی جنگ بندی قبول کرنے کو تیار ہے، مگر اگلے ہی دن انہوں نے خرطوم اور اتبرا پر ڈرون حملے کیے۔
جو لوگ الفاشر سے نکلنے میں کامیاب ہوئے، انہوں نے خطرناک سفر، ری ایس ایف کے تشدد، مردوں کے لاپتہ ہونے اور تاوان کے لیے اغوا کی شکایت کی۔ ایک خاتون نے بتایا کہ جنگجو زخمیوں کو دیکھ کر کہتے تھے: “اسے ختم کرو، یہ ابھی زندہ ہے۔”
مجموعی طور پر، رپورٹ الفاشر میں ہونے والے بڑے پیمانے کے قتل عام، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور انسانی بحران کی عکاسی کرتی ہے، جو سوڈان کی جاری خانہ جنگی کا سب سے ہولناک باب بنتا جا رہا ہے۔