ڈاکٹر قمر فاروق کی کتاب "جہاں خورشید” پر ایک نظر۔۔ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

468573726_1065835458882442_221446553797337030_n

ان دنوں ڈاکٹر قمر فاروق کی کتاب "جہاں خورشید” میرے زیر مطالعہ ہے یہ کتاب ایک بہترین تصنیف ہے جو کہ صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی مرحوم کے حکمت و دانش اور پند و نصیحت کے اقوال پر مبنی ہے۔ کتاب کا انتساب چوہدری محمد شفیع کے نام ہے اور اس کا دیباچہ ڈاکٹر انور سدید نے تحریر کیا ہے۔ اس کے علاوه مجیب الرحمٰن شامی، آصف شفیع، ڈاکٹر محمد فیاض، سید قاسم علی شاہ، محمد ناصر زیدی، ارشاد احمد حقانی، پروفیسر محمد اجمل نیازی، سلیم اللہ، فرید احمد پراچہ، ڈاکٹر محمد شفیق چوہدری، ارشاد احمد عارف، علامہ شاہ احمد نورانی، اور نعمان قادر مصطفائی جیسے علمی و ادبی شخصیات نے کتاب پر تبصرے لکھے ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں” ڈاکٹر قمر فاروق صاحب انسانوں کا علاج دو طریقوں سے کرتے ہیں وہ جسمانی بیماریوں کو ہومیو پیتھک ادویات سے رفع کرتے ہیں جو علاج بالمثل شمار ہوتا ہے روحانی بیماریوں کے لئے دانش مشرق کا نسخہ تجویز کرتے ہیں معنوی طور پر یہ بھی علاج بالمثل ہی ہے، یعنی یہاں ایک دانشور کا زندگی بھر کا تجربہ جب چند الفاظ میں ڈھل جاتا ہے تو اس تجربے کو پر لگ جاتے ہیں اور یہ ہر اس شخص تک پہنچ جاتا ہے جسے روحانی مرض لاحق ہو”۔

"جہاں خورشید” میں صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی کی شخصیت، ان کے اقوال، اور ان کی حکمت پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ایک علمی و روحانی شخصیت کی تعریف ہے بلکہ اس میں قاری کو زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کی دعوت بھی دی گئی ہے۔ ڈاکٹر مھر فیاض رقمطراز ہیں۔ "ڈاکٹر قمر فاروق اسپین میں مقیم ہیں لیکن آپ کے لفظوں کی خوشبو میرے چاروں طرف مہکتی ہے اور مہکاتی ہے”۔

مصنف نے خورشید احمد گیلانی کے اقوال کو موضوعاتی انداز میں پیش کرتے ہوئے ان کے اندر موجود دانائی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ سید قاسم علی شاہ لکھتے ہیں کہ "ڈاکٹر قمر فاروق کے مشاہدے اور مطالعے کی وسعت اور گہرائی کے ساتھ ان کے الفاظ میں احساس درد مندی کا بھی اندازہ ہوتا ہے آپ پاکستان سے محبت کرنے والے انسان ہیں فی الحال بارسلونا اسپین میں مقیم ہیں لیکن ان کی شخصیت حب الوطنی، ادب نوازی، انسان دوستی، سادگی اور تصوف کا فیضان نظر ہے کہ ان کا قلم فکری رسائی میں ڈوبا نظر آتا ہے”۔

کتاب کا مرکزی موضوع زندگی کے مختلف پہلوؤں پر حکمت و دانش کے اصول ہیں۔ یہ اصول اخلاقی تربیت، سماجی مسائل، روحانی پہلو، اور انسان کی انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں پر مبنی ہیں۔ یہ کتاب ان افراد کے لیے ایک رہنما اور استاد ہے جو زندگی میں کامیابی اور سکون کے متلاشی ہیں۔ محمد ناصر زیدی کے مطابق: "ڈاکٹر قمر فاروق ایک شگفتہ شخصیت کے مالک ہیں جو زندگی کے معاملات میں رب کی رضا اور بندگی کو سر فہرست رکھتے ہیں”۔

کتاب کو منظم انداز میں مرتب کیا گیا ہے۔ یہ مختلف ابواب پر مشتمل ہے جن میں خورشید احمد گیلانی کے اقوال کو موضوعاتی تقسیم کے تحت پیش کیا گیا ہے۔ دیباچہ اور انتساب کے بعد کتاب کے مختلف حصے قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہر باب ایک خاص موضوع پر مرکوز ہے، جیسے اخلاقیات، سماجی انصاف، اور روحانیت وغیرہ وغیرہ۔ ارشاد احمد عارف لکھتے ہیں کہ "جاگیرداری اور فوج کا تعلق بڑا گہرا ہوتا ہے۔ جاگیرداروں کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے۔ ہمیں جاگیرداری کے چنگل سے نکل کر حق کے ساتھ چلنا ہوگا، تبھی ملک کا اسلامی تشخص بحال ہوگا۔ اتحاد، انقلاب اور اجتہاد یہی سید خورشید احمد کے اہداف تھے”۔

کتاب کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ڈاکٹر قمر فاروق نے ایک ایسے فرد کی شخصیت کو اجاگر کیا ہے جس کی زندگی خود ایک مثال تھی۔ صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی کے اقوال میں حکمت کے موتی چھپے ہوئے ہیں جنہیں مصنف نے بڑی خوبصورتی سے قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔

دیباچے میں ڈاکٹر انور سدید نے کتاب کی اہمیت اور مصنف کی محنت کو سراہا ہے۔ دیگر شخصیات جیسے مجیب الرحمٰن شامی اور سید قاسم علی شاہ کے تبصرے کتاب کے مواد کو مزید مستند اور معتبر بناتے ہیں۔علامہ شاہ احمد نورانی کے مطابق: "خورشید مرحوم بڑے صاف گو، ملنسار اور شفقت کرنے والے انسان تھے۔ گرچہ وہ ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی تحریر میں آج بھی زندہ ہیں اور صدقہ جاریہ ہیں۔ ان کے الفاظ میں بے ساختہ روانی اور ان کی تحریر میں بلا کی جاذبیت ہے اور ہر سطر سے عشق رسول کا جذبہ ٹپکتا ہے”۔

مصنف نے ہر قول کے پس منظر اور سیاق و سباق کو واضح کرتے ہوئے اس کے عملی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ کتاب کا ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ یہ نہ صرف ماضی کے ایک عظیم فرد کی حکمت کو محفوظ کرتی ہے بلکہ اس میں موجود مواد قاری کے لیے آج بھی عملی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ نعمان قادر مصطفائی نے خورشید گیلانی کا خاکہ یوں کھینچا ہے۔ "خوبصورت گھنی داڑھی ، مونچھوں کا اپنا منفرد اسٹائل، سر پر بھی سندھی ٹوپی، چکتا دمکتا چہرہ، امت مسلمہ کے غم میں سوچتا ہوا ذہن، دھڑکتا ہوا دل، گفتار میں مدنی مٹھاس، نفاست و پاکیزگی کا مظہر، خوبصورت لباس، کردار میں نکھار، جب منبر رسول پر بولتے تو یوں محسوس ہوتا کہ فکر و دانش کی بارش ہو رہی ہو۔ صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی کو مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے بولتے وقت آپ کے لفظوں کا انتخاب اور جملوں کی حسن آفرینی سننے والوں کو اپنی طرف جذب کر لیتی تھی جس طرح صبح کے وقت چہکتے ، مہکتے گلاب کے پھولوں کو شبنم کے نرم و نازک قطرے ان کی رعنائی و زیبائی میں اضافہ کر دیتے ہیں اسی طرح خورشید احمد گیلانی کا مسحور کن لب و لہجہ تاروں بھری رات میں قمری نور کی مانگ بھر دیتا ہے”۔

"جہاں خورشید” ایک ایسی کتاب ہے جو زندگی کے ہر پہلو پر گہرے اثرات چھوڑتی ہے۔ ڈاکٹر قمر فاروق کی یہ تصنیف ادبی، فکری، اور سماجی میدان میں ایک اہم اضافہ ہے۔ یہ کتاب ہر اُس قاری کے لیے قابلِ مطالعہ ہے جو حکمت، دانش، اور پند و نصیحت سے بھرپور مواد تلاش کر رہا ہے۔ میں ڈاکٹر قمر فاروق کو ان کی کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے