خورشید صفت الفاظ۔۔۔۔مجیب الرحمن شامی

Screenshot 2024-12-22 at 9.24.29 PM

صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی مرحوم نے نصف صدی سے بھی کم عرصہ ہمارے درمیان گذارا لیکن اپنے حلقۂ تعارف پر علم، حلم اور قلم کی ایسی چھاپ لگا کر رخصت ہوئے کہ انہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں اُن کے کالم ’’قلم برداشتہ‘‘ نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑے، تو خطابت کے میدان میں آغا شورش کاشمیری، اور علامہ احسان الٰہی ظہیر کے بعد ان کا پرچم لہرانے لگا۔

وہ علماء اور مشائخ کی صفوں میں نمایاں تھے، اہلِ صحافت میں بھی ممتاز تھے۔ اُن کی فکری مثلث کے تین نکتے تھے، اتحاد، انقلاب اور اجتہاد … مسلمانوں کو مسلکی اور فرقہ وارانہ الجھنوں سے آزاد کرکے متحد کرنا، اتحاد کے ذریعے اجتماعی زندگی میں انقلاب برپا کرنا اور اجتہاد کے ذریعے آگے بڑھنے کے راستے کشادہ کرتے جانا اُن کی زندگی کا مقصد تھا۔ اُن کی تحریروں اور تقریروں سے الفاظ کے موتی چُن چُن کر ڈاکٹر قمر فاروق نے ’’جہانِ خورشید‘‘ مرتب کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب بارسلونا میں مقیم ہیں لیکن ان کا دل پاکستان میں اور پاکستان اُن کے دل میں ہے۔ تاریخ، ادب اور سیاست پر اُن کی نظر گہری ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد سے ان کا ’’طویل مکالمہ‘‘ کتابی صورت میں چپ کر ان کی دھاک بٹھا چکا ہے۔ ’’جہانِ خورشید مرتب کرکے انہوں نے جو گلدستہ ترتیب دیا ہے ، وہ مہکتا رہے گا۔ صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی کے خورشید صفت الفاظ ہمارے اندھیروں کو منور کرتے رہیں گے، اور ڈاکٹر قمر فاروق صاحب پڑھنے والوں کی دعائیں سمیٹتے رہیں گے۔

اللہ اگر توفیق نہ دے، انسان کے بس کا کام نہیں

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے