بارسلونا میں بے گھر افراد کی گنتی: 600 سے زائد رضاکاروں کی شرکت
Screenshot
بارسلونا کی سڑکوں پر رات گزارنے والے بے گھر افراد کی تازہ گنتی کے لیے آرلس فاؤنڈیشن کی جانب سے 600 سے زیادہ رضاکار میدان میں نکلے۔ یہ سروے فاؤنڈیشن 2008 سے کرتی آ رہی ہے تاکہ شہر کی اصل اور تازہ صورتحال سامنے آ سکے۔ ادارے کی ڈائریکٹر، بیئا فرناندیز کے مطابق درست اعداد و شمار کے بغیر یہ طے کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کس نوعیت کے وسائل درکار ہیں۔
بے گھری میں تشویشناک اضافہ
فاؤنڈیشن کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں سڑکوں پر سونے والوں کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے جس کی بڑی وجہ رہائش کے بحران اور روزگار کی عدم استحکام ہے۔ جون سے اب تک مختلف عوامی مقامات اور غیر رسمی آبادکاریوں سے لوگوں کو ہٹایا گیا، جیسے کہ desallotjament del Parc de Joan Miró,کا خالی کرایا جانا، جس کے بعد بے گھر افراد وہ جگہیں اختیار کرنے لگے جہاں پہلے ایسے مناظر کم دیکھے جاتے تھے۔
آرلس کے پچھلے سروے (2023) میں 1,384 افراد سڑکوں پر سوتے پائے گئے تھے۔ بلدیہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق نومبر 2025 تک یہ تعداد بڑھ کر 1,784 ہو گئی ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 33 فیصد اضافہ ہے۔
رضاکاروں کی تقسیم اور طریقہ کار
رضاکاروں کو ہر علاقے میں موجود کوآرڈینیٹر نے دو یا دو سے زیادہ افراد کے گروپوں میں تقسیم کیا۔ انہیں علاقے کا نقشہ اور ایک موبائل ایپ دی گئی جس کے ذریعے وہ بے گھر افراد کی موجودگی، تعداد، سونے کی جگہ، جنس اور ساتھ موجود کسی پالتو جانور وغیرہ کے بارے میں معلومات درج کرتے گئے۔
“بے گھری شدید نوعیت کا تشدد ہے”
آٹھ سال سے سروے میں شامل رضاکار جوزیپ توریکو نے کہا کہ سڑک پر زندگی گزارنا ایک انتہائی تکلیف دہ حقیقت ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے ساتھ مونتسے موسونس اور شاوی تاماریت بھی تھے جن کے مطابق سڑکوں پر نئے چہرے نظر آ رہے ہیں اور کئی لوگ ایسے طریقے سے چھپ کر رہتے ہیں کہ انہیں دیکھنا مشکل ہوتا ہے۔ دو گھنٹے میں انہوں نے 12 بے گھر افراد کو شناخت کیا۔
والد اور بیٹی کی شرکت
جولیا اور البرت، جو برسوں سے فاؤنڈیشن کے ساتھ جڑے ہیں، اس رات بسوس اور مارسمے کے علاقوں میں گنتی میں شامل رہے۔ انہیں تین افراد ملے جو کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے تھے۔ البرت کا کہنا تھا کہ وہ صورتحال سے واقف ہیں اور مدد کی نیت سے اس کام میں حصہ لیتے ہیں۔ ان کے مطابق درست اعداد و شمار سے اداروں پر زیادہ ذمہ داری ڈالی جا سکتی ہے تاکہ اس مسئلے کو عملی طور پر حل کیا جا سکے۔